”تشدد کے ضابطوں کو ہم نہیں مانتے“ (ڈاکٹرریاض رضیؔ)

(گلگت میں حقوق کی آرزو لئے سڑکوں کی خاک چھاننے والے فدایانِ وطن پر بربریت قابلِ مذمت ہے)
حق کی بات کہنے کی تھی کہی گئی، حق کو چھیننے کی ”گستاخی“ جو کر بیٹھے اہلیانِ وطن کہ رقیب سے رہا نہ گیا۔ پُرتشدد پالیسی کی وضع قطع سے یہ باور کرایا گیا کہ جنبشِ قلم کو اب ٹوکنے کی سزاء موت ہے۔ تبھی تو حفیظو نے ڈنڈوں سے مظاہرین کی خُوب ”تواضع“ کی۔ ہم سے تقاضا ہے کہ مہذب ہوں ہم اور خود کی تو ساری تہذیب دریا بُرد کرچکے ہیں۔ نہ معلوم کہ ٢٠١٨ء کے آرڈیننس کی وثاقت کو ثابت کرنے کےلئے آپ طُرفہ تماشہ اور ظلمِ بے پناہ کی کون سی حد پار کریں گے۔ خدشہ یہی ہے کہ اس دوران آپ کی آنکھ و کان بند اور زبان کنگ رہے گی جبکہ ہاتھ مسلسل حرکت میں رہیں گے۔۔ خدا را! مخلوقِ خدا کی بے حرمتی کا سبب مت بنیئے ورنہ آپ کا حساب بھی بے حساب ہوگا۔۔انشاءاللہ

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری