گلگت بلتستان آرڈر 2018کے خلاف عوامی احتجاج اور حکومتی ہٹ دھرمی۔ تحریر: شیرعلی انجم

اٹھائیس ہزار مربع میل پر مشتمل مسلہ کشمیر سے منسلک خطہ گلگت بلتستان صدیوں پر محیط ایک تاریخی خطہ ہے۔ تاریخ کے دریچوں کو کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں صدی عیسوی سے یہاں دردستان، بلورستان اور بروشال کی ریاستیں قائم تھی اور اس خطے کو تبت ریاست کی ایک اہم اکائیہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اُنیسویں صدی میں اس خطے پر سکھوں نے قبضہ کر لیا اور101سال تک ڈوگروں کے ماتحت رہے۔ اس دوران یہاں کے باسیوں نے سکھوں سے آذادی حاصل کرنے کیلئے کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اس کے باوجود آذادی نصیب نہیں ہوئی اور بلآخر متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب مہاراجہ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو یہاں کے عوام نے ڈوگرہ سلطنت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور بغیر کسی غیرریاستی امدا کے گلگت اور لداخ میں ڈگروہ حکومت کا خاتمہ کرکے جمہوریہ گلگت کے نام سے نئے ریاست کی بنیاد رکھی اور یہ ریاست صرف 16 دن تک قائم رہے۔ اس نومولود ریاست کی بربادی کیلئے غیروں کی سازش اور اپنوں کی روش اور متعصبانہ سوچ نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ لیکن اُس آذادی کی بنیاد پر نہ گلگت بلتستان مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بن سکے اور نہ ہی ریاست جموں کشمیر میں جو ریاستی حیثیت تھی وہ برقرار رہی۔ 16 نومبر 1947 کو اس علاقے کو آزاد کرانے والوں نے جس شخص کو پاکستان کے ساتھ رابطہ افیسر کے طور پر بُلایا تھا اُس نے یہاں پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پی اے نے وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ یہاں انتظامی ڈھانچے کو ایف سی آر اورایجنسی نظام کے تحت چلایا جاتا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وفاق کی جانب سے ان عہدوں میں تبدیلی آتی گئی، اور یہاں ریذیڈنٹ، ایڈمنسٹریٹر، چیف کمشنر اور چیف سیکریٹریز کی حیثیت سے وفاقی نمائندے اس خطے کا انتظام و انصرام سنبھالتے رہے۔متنازعہ خطے کو درپیش سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے1961میں پہلی مرتبہ بنیادی سیاسی نظام کی بنیاد رکھ کر انتخابات کروائے گئے۔


چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع انتہائی حساس اور اہم جعرفیائی اور دفاعی اہمیت کے حامل متنازعہ گلگت بلتستان کو قدرت نے وہ سب کچھ عطا کیا ہوا ہے جو شاید ہی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور خطوں کو میسر ہو۔ کہتے ہیں قطبین کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ آبی ذخائر گلگت بلتستان میں گلیشرز کی شکل میں موجود ہیں، سیاحت،معدنیات اور جنگلات کے حوالے سے بھی اس خطے کا پاکستان میں کوئی ثانی نہیں۔ ہائیڈرو الیکٹرک پروڈکشن کے حوالے سے بھی یہاں 52 ہزار میگاواٹ پن بجلی کے مواقع موجود ہ ہیں لیکن پروڈکشن 20 فیصد بھی نہیں جس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاری کیلئے مناسب انتظام نہ ہونا بتایا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت سی پیک کی تکمیل کیلئےاس خطے کا00 6 کلومیٹر رقبہ استعمال ہوگا لیکن سی پیک کا ایک بھی صنعتی زون گلگت بلتستان میں قائم نہیں کیا گیا بلکہ سی پیک کا پہلا پڑاو سُست گلگت بلتستان سے شروع ہوکر حویلیاں میں لے جایا گیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر گلگت بلتستان میں ہورہا ہے لیکن بدقسمتی سے اور پاور جنریشن ٹربائین کوخیبرپختونخواہ کے حدود میں رکھا گیا ہے جس کی اصل وجہ اس خطے کا متنازعہ ہونا بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں انفراسٹکچر کی بدحالی ،تعلیم ، صحت اور روزگارکا مسلہ اس خطے میں بدترین صورت حال اختیار کررہا ہے لیکن مقامی اخبارات میں گلگت بلتستان ملائیشیا اور ہانک بنانے کی مسلسل خبروں نے اب نئی نسل نے مقامی اخبارات سے کنارہ کشی اختیارکرنے پر مجبور کیاہے ۔ محترم قارئین تمہید طویل ہوگیا جس کیلئے معذرت چاہتے ہوئے ہم اگر موضوع پر بات کریں تو ان سب وجوہات کی اصل وجہ اس خطے کا متنازعہ ہونا اور اس خطے کو بطور مکمل پاکستانی یا متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر حقوق کا نہ ملنا ہے۔ 2009 میں پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان سلیف گورنمنٹ آرڈر کے نام سے ایک پیکج دیا جسکا مقصد اس خطے کی محرومیوں کو کم کرنا اور اس خطے کی شناخت کو بحال کرنا تھا اُس پیکج کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار گلگت بلتستان کو نام دیا اور یہاں صوبائی طرز پر ایک انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں کچھ اختیارات امور کشمیر اور وفاق سے لیکر گلگ بلتستان اسمبلیکو تفوض کیا ۔اُس پیکج کے خلاف بھی قوم پرستوں نے کھل کر احتجاج کیا اور اُنکا مطالبہ تھا کہ گلگت بلتستان کو پیکج نہیں شناخت چاہئے اس احتجاج میں موجودہ حکومت کے وزیر اعلیٰ سمیت اہم رہنماوں نے بھر پور شرکت کی اور گلگت بلتستان پیکج کو مسترد کیا۔ جبکہ پیپلزپارٹی والوں کا دعویٰ تھا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے دیگر صوبوں کے صف میں لاکھڑا کیا ہے لہذا اس حوالے سے احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن اور بھارت نواز قرار دیا۔گلگت بلتستان کا سب سے اہم مسلہ بدقسمتی سے ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ یہاں حقوق کا مطالبہ زمینی حقائق اور خطے کی بین الاقوامی حیثیت کے بجائے مسلک اور علاقائت کی بنیاد پر کرتے رہے ہیں۔ اس خطے میں چونکہ مسلک اہل تشیع اکثریتی آباد ی پر مشتمل ہیں اور ان کے مذہبی رہنماوں نے پانچواں آئینی صوبے کا مطالبہ کیا اور اس بنیاد پر گلگت بلتستان میں بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع ملنے کے باوجود اپنے نعرے اور منشور پر عمل درآمد کرنے میں ناکام نظر آیا۔ کیونکہ یہ خطہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور ریاست جموں کشمیر کے دیگر اکائیوں سے الگ کرکے عوامی مطالبے کے باوجود آئینی صوبہ بنانا اتنا آسان نہیں جنتا سمجھا جارہا تھا۔دوسری طرف مسلک اہلسنت مکتب دیوبند کا خیال ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ یہ علاقہ چونکہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اور اس بات کو پاکستان ہندوستان اور کشمیری بھی مانتے ہیں لہذا گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کو ملا کر ون یونٹ بنادیا جائے یا گلگت بلتستان کو کشمیر میں ضم کیا جائے، تیسری جو سوچ ہے جوکہ قوم پرستوں کا سوچ ہے اُنکا خیال ہے کہ ایک طرف اس خطے کی آذادی ایک حقیقت ہے دوسری طرف گلگت بلتستان آئینی صوبہ ناممکن ایک تلخ حقیقت ہے۔ ایسے میں اس خطے کو نہ ہی متنازعہ حقوق میسر ہیں نہ ہی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کو چاروں صوبوں کو میسر ہے ۔ انکا خیال ہے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کشمیر تین حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا ایک جموں میں مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو آذاد کشمیر میں پاکستان کے قبائلوں نے لشکر کشی کی اور اس لشکر کشی کے نتیجے میں چار ہزار مربع میل پر مشمل رقبہ حاصل کرلیا جن کے پاس آج اپنا دستور ہے آئین ہے اور اُنکی ایک قومی پہچان ہے۔ مگر تیسری طرف گلگت بلتستان کے عوام نے مہاراجہ سے بغاوت کرکے 28 ہزار سے ذیادہ مربع میل حاصل کرلیا مگر یہ خطہ نہ تین میں ہے اور نہ ہی تیرہ میں، اس خطے کی قسمت کا فیصلہ بھی جب مسلہ کشمیر کی حل تک واضح نہیں تو اس خطے کی تاریخی اہمیت اور آذادی کی بنیاد پر مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے اس خطے کو بھی اپنا آئین مل جانا چاہئے۔ یہ سوچ اور دلیل دراصل قوم پرستوں کا ہے لیکن بدقسمتی سے اس سوچ کو اسماعیلی فکر کا نا م دیا ہوا ہے جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ اسماعیلی چونکہ تعلیم اور معاشی طور پر مضبوط ہیں لہذا یہ لوگ اس خطے کو اسماعیلی اسٹیٹ بنانا چاہتا ہے یاد رہے یہ سوچ دیامر ریجن میں ذیادہ پایا جاتا ہے۔ مگر میں یہ تاثر بلکل غلط ہے بلکہ اس وقت تو تمام مسالک کے اکابرین کی سوچ اسطرف مائل ہورہا ہے کیونکہ ستر سال بعد عوام نے اس مسلے کو سمجھ لیا ہے کہ گلگت بلتستان صوبے کا مطالبہ دراصل ہمارے ساتھ ایک دھوکہ تھا جس سے نکلنا ضروری ہے۔ 2015 میں پاکستان پیپلزپارٹی کا سورج غروب ہوتے ہی مسلم لیگ نون کی سورج طلوع ہونے کے آثار نظر آیا تو اُنہوں نے بھی عوامی سوچ کے مطابق آئینی حقوق دینے کا نعرہ لگایا لیکن الیکشن کے بعد اس نعرے کی غبارے سے خود وزیر اعلیٰ نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا نکال دیا۔ اور کہا گیا کہ مسلہ کشمیر اور کشمیریوں کے قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم وفاق کو اس سلسلے میں تنگ نہیں کریں گے لیکن آئینی صوبے کیلئے قانون ساز اسمبلی سے بھاری اکثریت کے ساتھ بل بھی پاس ہوگیا۔ اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیا جنہوں نے دو سال کے بعد جو تجاوزیر حکومت کو پیش کیا اُس میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان چونکہ مسلہ کشمیر سے منسلک ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس خطے کی منتازعہ حیثیت کو چھیڑنے سے پاکستان کو عالمی سطح پر بہت ذیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے مسلہ کشمیر پر پاکستان کی موقف میں کمزوری آسکتا ہے ۔لہذا گلگت بلتستان اسمبلی کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی سفارش کی۔ کئی ماہ انتظار کرنے کے بعد اچانک گلگت بلتستان آرڈر 2018 سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور آرڈر کے بہت سارے شقات میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزری کا ذکر سامنے آیا اور سب سے بڑھ کر اس خطے کے حوالے سے تمام تر اختیارات کا منبع وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا اور وزیر اعظم کو عدالتی اور مقامی اسمبلی کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا حق دینے کی باتیں ہوئی۔ جبکہ اس خطے کے عوام کو وزیر اعظم کی انتخاب کیلئے ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے متنازعہ شقیں موجود ہیں جوکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے اور عوام خاص طور پر یوتھ اس حوالے سے بہت ذیادہ سراپا حتجاج نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے لاہور اور اسلام آباد میں خصوصی طور پر سمینار کا انعقاد کیا گیا فیس بُک اور ٹیوٹیر پر اس حوالے سے مسلسل ٹرینڈ چلایا جارہا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی سمیت متحدہ اپوزیشن نے حوالے سے بہت ذیادہ متحرک نظر آتا ہے ۔گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن کے رہنماوں نے خطے کی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی کے سامنے اس آرڈر کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن بدقسمتی سے کسی اہم حکومتی شخصیت نے اُن سے ملنا تک گوارا نہیں کیا۔ گلگت بلتستان میں پہلی بار متحدہ اپوزیشن اور عوامی ایکشن کمیٹی نے ملکر کر اس آرڈر کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ دوسری طرف حکومت ایک طرف اس مسودے کو فیک قرار دیتے رہے دوسری طرف اخبارات میں مسلسل آرڈ کے مسودے کی حمایت میں دلیل بھی پیش کرتے رہے۔ وزیر اعلیٰ عوام سے سوال کرتے رہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ اس آرڈر میں خرابی کیا ہے۔ اس حوالے سے عوام اور متحدہ اپوزیشن نے حکومت کو واضح پیغام دیا کہ گلگت بلتستان اب مزید کسی آرڈر کا متحمل نہیں ہے اس خطے کو یا تو مکمل آئینی صوبہ بنایا جائے دوسری صورت میں خطے کی متنازعہ حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے حقوق دیا جائے۔ لیکن حکومت نے کسی کی نہ سُنی گلگت بلتستان آرڈر کا اعلان ہوگیا اور وزیر اعظم نے آرڈر نافذ کرنے کیلئے 25 مئی کو گلگت کا دورہ کیا ۔ اس دورے کے موقع پر عوام نے شدید احتجاج کیا شٹرڈاون ہڑتال کی حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف زبردست شلینگ کی جس کے نتیجے میں چیرمین عوامی ایکشن کمیٹی مولانا سلطان رئیس سمیت کئی اہم رہنمازخمی ہوئے۔ دوسری طرف اسمبلی کے اندر متحدہ اپوزیشن وزیر اعظم کو باقاعدہ طور پر ویلکم کیا اور اپنا مطالبہ اُن کے سامنے رکھنے کی کوشش کی لیکن مثبت جواب نہ ملنے پر گلگت بلتستان اسمبلی کو وزیر اعظم کے سامنے محاذ جنگ بنا دیا ،قوم پرست ممبر اسمبلی نواز خان ناجی نے وزیر اعظم کے سامنے آرڈر پھاڑ کر پھینک دیا متحدہ اپوزیش نے اُنکا ساتھ دیتے ہوئے اسمبلی سے واک آوٹ کیا۔ لیکن وزیر اعظم کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ور وہ آرڈر نافذ کرکے چلے گئے۔ عجب بات یہ ہے کہ مہذب اور جمہوری معاشروں میں آن لائن پٹیشن دائر کرنے سے بھی بڑے بڑے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کی قسمت دیکھیں کہ ایک غیر متنخب شخص منتخب عوامی نمائندوں کو یہ کہتے نظر آیا کہ پیکج اچھا ہے آپکو قبول کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال کے بعد متحدہ اپوزیشن نے اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کرتے ہوئے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے دوسری طرف حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے مسلکی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں ایک گھمسان لڑائی شروع کردی ہے جسکا مقصد متحد عوام کو منتشر کرنا ہے۔ دوسر ی چیرمین عوامی ایکشن کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم گلگت بلتستان کو آذاد کشمیر کے طرز پر ایک ریاستی نظام دینا چاہتے تھے لیکن وزیر اعلیٰ نے اسے آفر کو مسترد کرکے آرڈ کیلئے حامی بھری ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے آرڈر نہیں آئین چاہئے،پیکج نہیں حقوق چاہئے۔ ستر سال بعد آرڈر ہمیں قبول نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن اور عوامی ایکشن کمیٹی ماضی کی طرح اس بار بھی عوامی امنگوں پر اُتر آتے ہیں یا حکومت اس قومی کاز کو فرقہ واریت کے بھینٹ چڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ فیصلہ وقت نے کرنا ہے لیکن اس تمام معاملے میں ملک دشمن عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے اور اس سے مملکت پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے جسکا صدمہ یقینا مجھ سمیت تمام محب وطن کو ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری