گلگت بلتستان کو درپیش مشکلات اور قومی وحدت کی اہمیت۔ تحریر: علی شیر

روشن دریچے

گلگت بلتستان آرڈر 2018 میرے لئیے ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔جو آرڈر میری ٹیبل میں پڑا ہوا ہیں اسے حکومتی زمہ داران جعلی قرار دے چکے ہیں اور حکومت جس آرڈر کو اصلی ڈرافٹ قرار دے رہی ہیں وہ مہیا کرنے میں حیل حجت کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہیں۔قطہ نظر آرڈر 2018 اچھا ہے یا برا۔لفظ آرڈر کا استعمال حاکم محکوم کے لئے آفسر ماتحت کے لئیے یا پھر ریاست کسی امور میں قانونی و آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کو آرڈر سنا سکتی ہیں۔گلگت بلتستان حقوق صوبائی گیر خواہش میں عوام میں دو طرح کی خواہشات پائی جاتی تھی “پانچواں آئینی صوبہ یا پھر آزاد کشمیر طرز کا نظام”۔اتحادی اپوزیشن کی جانب سے گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے مخالفتی نکات میں ایک معقول بیانہ بھی سامنے آ رہا تھا وہ یہ کہ جو بھی نظام ہوں وہ ایکٹ آف پارلیمان کا حصہ ہوں۔مگر خطے کی متنازعہ حثیت میں ایکٹ آف پارلیمان کی گنجائش کے تشریح سے معزور دیکھائی دئے۔صوبائی حکومت عوامی مینڈیٹ رکھتی ہیں یقیننا انہوں نے اپنے طے خطے کی عوام کی ترجمانی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہوگی مگر گلگت بلتستان کے باشندگان میں اس آرڈر کے حوالے سے عوامی آگہی میں مکمل طور پر ناکام ثابت رہی جنکے زمے حکومتی پالیسیز کے حوالے سے مختلف سٹیک ہولڈرز کے زرئیعے عوام کو اعتماد میں لینا ہوتا ہیں وہ غیر سیاسی مزاج اپنائے ہوئے ہیں اپنے طے وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور ایسے ہی آفراد کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ وزیر اعلی گلگت بلتستان کی پریشانیوں میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہیں۔اسی لئے تو گلگت بلتستان آرڈر 2018 ایکٹ کے حوالے سے عوام نے اپوزیشن کی کال ہر لبیک کیا۔گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے معملے میں حکومتی کردار مشکوک رہا۔دیکھنا یہ ہیں کہ اس فرمابردار قوم کے لئیے یہ آرڈر ترقی کی نئی راہیں کھولتا ہیں یا پھر خطے کی عوام میں حقیقی سیاسی شعور کو جلا بخشتا ہے۔حکومتی اقدام کو جب تک عوامی حمایت حاصل نہ ہوں وہ اقدامات بھلے من و سلوی جیسے کیوں نہ ہوں پزیرائی سے محروم اور مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔گلگت بلتستان نیا اصلاحاتی آرڈر کے منظر عام پر آنے کے بعد جسے حکومتی زمہ داران نے جعلی اور عوام کو گمھراہ کرنے کے حوالے سے سازشی اپوزیشن آرڈر قرار دیا اس پر گلگت بلتستان کے آج کے نوجوان نے سب سے زیادہ سوالات اٹھائے نوجوانوں کے خطے کے معملات میں اتنی زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ دلچسپی کا مظاہرہ خوش آئند ہے نوجوانوں کی جانب سے بلند کی گئی صدا انکی پکار کو سننا حاکم وقت حکومت وقت و سیاسی شخصیات پر لازم ہے۔گلگت بلتستان کے موجودہ حالات پر سیاسی جماعتوں کے راہنماوں کو جرات مندی کے ساتھ اورخطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے حوالے سے وسیع سیاسی شعور کو اپناتے ہوئے بہت زیادہ زمہ دارانہ رویہ اپنانا ہوگا۔گلگت بلتستان کا آج کا نوجوان گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند دکھائی دے رہا ہیں آپکے طرز سیاست طرز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے سوال اٹھا رہا ہیں آپکو اس سوال کو سننا ہوگا آپ کو آج کے نوجوان کا سامنا کرنا پڑے گا۔آج کے نوجوان کو مطمئن کرنا آپکی زمہ داری ہیں۔آج کے نوجوان کی صلاحیتوں کو خطے کی تعمیر و ترقی کے لئیے استعمال کریں انہیں انکی صلاحیتوں کے مطابق مواقع دے یہ انکا حق ہے آپ احسان نہیں کر رہے انہیں سیاسی ایجنڈوں کو تقویت بخشنے کے لئیے استعمال مت کرے۔ آج کے اس نوجوان کے مستقبل کو آپ نے ہمیشہ نظر اندار رکھا سرمایہ دارانہ نظام پر استوار سیاسی نظام کے زیر طابع آپ نے آج کے نوجوان کی راہنمائی فرمانےآج کے نوجوان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئیے آپ نے کردار ادا نہیں کیا۔میں آج کے نوجوان کی سوچ اسکئ فکر اور اسکے اندر اٹھنے والے سوالات کا بغور جائزہ لے رہا ہوں یاد رہیں آپ نے آج کے نوجوان کی اہمیت اسکی صلاحیتوں اس میں موجود توانائیوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اسکئ رائے کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں رکھو گے تو آج کا یہ نوجوان آپ کے سیاسی ستقبل کو تاریک کرنے کی وجہ بن سکتا ہیں۔سیاسی منشور سیاسی وابسطگیاں بھی لازم ہیں مگر ملوکیت طرز کی اس سیاسیت میں آپکی سیاسی بقا اسی میں ہیں کہ آپ آج کے نوجوان کی آواز اسکی پکار پر توجہ دے یہی نوجوان گلگت بلتستان کے مستقبل کا ضامن ہے۔سقراط کا جرم یہ نہی تھا؛؛؛؛کہ وہ سوچنا جنتا تھااوراس کی سوچ خطرناک تھی اس کا قصور یہ تھا کہ وہ سوچنا سکھاتا تھا اس کے زیر اثر آیتھنز کے نوجوان اپنے ذنگ الود نظام اور دیمک زدہ روایات پہ سوال اٹھانے لگے تھے۔ گلگت بلتستان کا آج کا نوجوان آج خطے میں موجود سیاسی نظام، مزہبی سوچ اور انکے حامل کرداروں پر سوال اٹھا رہا ہیں۔ گلگت بلتستان حقوق کے حصول کے لئیے اہل ادب اہک قلم شخصیات کو آگے آنا ہوگا قومی وحدت کو فروغ دینے کے لئیے تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینا ہوگا جو تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پر باہمی گفت و شنید کے بعد خطے کے وسیع تر مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ” گلگت بلتستان حقوق ” پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرے۔موجودہ حالات میں سیاسی آکابرین کی طرز سیاست معزرت کے ساتھ خطے کے نوجوانوں میں مثبت سیاسی شعور جگانے کے بجائے نفرت۔بغاوت۔ اور ایک دوسروں کو غداری کے ٹائیٹل نوازنے کی فضاء کو فروغ دیا جا رہا ہے میں ہر اس عمل کی مزمت کرتا ہوں جو سیاسی جمہوری پیراہوں سے ہٹ کر ہوں۔ آغا صاحب کی ایک تقریر سننے کو ملی صد احترام آغا صاحب کے جزبات انکی جدوجہد سے انکاری نہیں مگر جو انداز خطاب اور اس میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے جن الفاز لب و لہجہ اپنایا ہوا تھا وہ خطے میں مثبت پرامن سیاست کے برخلاف انداز تھا۔ اسطرح کا انداز حکومتی سطح پر بھی نظر آیا اور یہ انداز خطے کے لئیے اور خطے کے نوجوانوں کے لئیے بہتر نہیں۔اہل فکر اہل علم اہل قلم آغا صاحب کے جوش خطابت پر مزمت کر رہے تھے کہ اسی اثنہ میں حکومتی ٹیم کی جانب سے یک شد نہ شد تین شد ملوکیت طرز سیاست کی عین تعلیمات کے مطابق فرز واحد کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال اور مشیر اطلاعات شمس میر نے آغا صاحب کے طرز خطابت کے جواب میں ان سے بھی بڑھ کر غیر سیاسی غیر اخلاقی انداز میں بیانات کا سلسلہ جاری کیا خطرناک ترین انداز بیان کو اپنایا جس میں واضح طور پر علاقیت کا پتہ استعمال کرنے کا عندیہ دے دیا ۔گلگت بلتستان کے نوجوانوں اور خطے میں بسنے والے صاحب فکر شخصیات کو سوچنا ہوگا نہ کہ سوچنا عملا اب خطے میں مثبت تعمیری طرز سیاست اور اس سیاست کے قائل سوچ کو آگے لانا ہوگا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان اگر واقعی میں امن کے داعی ہیں تو انہیں اپنی صف میں شامل انہی کی سوچ کے منافی ان شخصیات کو روکنا ہوگا نہ روکنے کے صورت میں وہ دن دور نہیں کہ انہی کی جماعت کی یہ شخصیات اور انکا یہ طرز سیاست وزیر اعلی کو لے ڈوبے گا۔موجودہ حالات میں قومی وحدت اور ایک نوکاتی قومی بیانہ ناگزیر ہوچکا ہے اور اسکے لئیے اہل علم اہل قلم کو اب اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کہی ایسا نہ ہو کہ آپ مصلحتوں کے شکار رہے اور خطہ پھر سے ایک مرتبہ اندرونی سازشوں تقسیم در تقسیم کی نظر ہو جائے مگر یاد رہے کہ آب آج کا نوجوان شعور رکھتا ہے آج کا نوجوان آپ کا احتساب کے لئیے تیار ہے چاہئیے آپکا روپ سیاسی مذہبی یا پھر آپ اہل قلم سے ہوں۔آج کے نوجوان کا احتساب کو سہنا آپکے بس میں نہیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری