خواتین اور تعلیم تحریر ۔خدیجہ اکبر خان

   مردوں کے مساوی حقوق کے لیے جدو جہد کرنا پڑ رہی ہے۔مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گْھلنا شروع ہو جاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ عورت معاشرے کا اہم جز ہے جسے ہر روپ میں اسلام نے اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے۔اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق دئیے۔اور ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔ تعلیم کے حصول کے لئے خواتین کو یکساں مواقع کی فراہم ہونے چاہئیں۔ تعلیم یافتہ خواتین قومی ترقی کے فروغ میں اہم کردار کی حامل ہیں۔ یہ امر ضروری ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ قومی ترقی کی رفتار تیز ہو کیونکہ تیز رفتار ترقی کیلئے خواتین کو اپنا مو ثر کردار اداکر سکتی ہیں ہے۔ صنفی امتیاز کے خاتمے اور یکساں حقوق کی فراہمی سے ہی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے، ملک کی نصف سے زائد آبادی کو ترقی کے دھارے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ قومی ترقی کے مقاصد کے حصول کے لئے مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ خواتین کی شرکت سے نہ صرف ملک کی افرادی قوت دوگنا ہوگی بلکہ پرعزم اساتذہ، بیورو کریٹس، سائنسدانوں،سیاستدانوں انجینئرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی بڑی تعداد میں دستیابی بھی یقینی ہوگی۔حضور پاکؐ کا فرمان ہے : ’علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر لازم ہے‘‘۔ ۔مگر افسوس کی بات تو یہ ھے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہونے کے باوجود بھی یہاں ایسے علاقے موجود ہیں جہان نصف کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر سکول موجود ہونے کے باوجود بھی لڑکیوں کے داخلے میں کمی واقع ہورہی ھے۔ بعض والدین اپنے بیٹوں کے کہنے میں آکر بیٹیوں کو سکول سے روک لیتے ہیں اور بعض پرایا مال سمجھ کر تعلیم سے دور کر دیتے ہیں . اور بہت سےیہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر ہر لڑکی نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تو پھر کیا ہوگا؟؟؟ جب کہ بعض اپنی بچیوں کی تعلیم استطاعت نہ رکھنے کے باعث تعلیم روکوا دیتے ہیں۔اس کے علاوہ سماجی اور معاشی عوامل دونوں ہی کارفرما نظر آتے ہیں۔خاندانی رسوم و رواج، عورتوں کے تحفظ کے بارے میں مخصوص اندازِ فکر، کم عمری کی شادیاں، معاشی کمزور حالات، لڑکیوں کے لیے سکول کا دور ہونا یا الگ سکول نہ ہونا، بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر نہ سمجھنا وغیرہ۔ ملک کی نصف سے زائد آبادی کو تعلیم سے محروم کرنا سماجی لحاظ سے کسی بھی طور پر قابل جواز نہیں ہے اور یہ آئین کی روح کے بھی منافی ہے۔ خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے اور بااختیار بنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے معاشرہ میں متضاد خیالات موجود ہیں اور اس قسم کے کئی منفی تصورات جہالت کی بناپر پائے جاتے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالے تو خواتین نے بے شمار فرائض انجام دیے ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا.. حضرت خدیجہ سلام علیہ کئی ممالک پر محیط کاروباری سرگرمیاں مستعدی سے انجام دے دیتی تھیں ، حضرت عائشہ حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ مرتب کرنے کی استعداد رکھتی تھیں اور، کربلا کا واقعہ کربلا میں ہی رہ جاتا اگر زینب سلام علیہ اپنے عمل سے اپنے خطبوں سے اس کا پرچار نا کرتیں..... ہماری بیٹیاں بھی اپنی گھریلو زندگی معاشرتی زندگی اور کاروبار چلانے میں توازن پیدا کر کے ان کے نقش قدم پر چل سکتی ہیں۔ ۔ اہلِ دانش نے ایک مر د کی تعلیم کو ایک فر د کی تعلیم جبکہ ایک عورت کی تعلیم کو پورے خاندان کی تعلیم قرار دیا ہے جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ عورتوں کی تعلیم نہ صرف خاندان کی فلاح و بہبود بلکہ اگلی سطح پر پورے معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔ تمام الہامی مذاہب اور ترقی پسند معاشروں نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے حق اور ضرورت و اہمیت کو معاشرتی ترقی کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا: ’’دنیا میں دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار ہے اور دوسرا قلم ہے۔ ان دونوں کے درمیان شدید مسابقت اور رقابت ہے۔ ان دونوں سے زیادہ طاقتور ایک اور قوت بھی ہے اور وہ خواتین ہیں۔‘‘خواتین کو تعلیم کی فراہمی سے غربت میں کمی، صحت مند رہنے کے لیے بنیادی سہولیات سے آگاہی، ملازمتوں کے بڑھتے ہوئے مواقع اور معاشی خوشحالی میں زیادہ مدد ملتی ہے۔حقیقت میں خواتین کا بااختیار ہونا معاشی طور پر مضبوط ممالک کی بنیاد ہے۔ جب زیادہ خواتین کام کرتی ہیں تو افرادی قوت بڑھنے سے معیشت ترقی کرتی ہے اور اسی طرح کھپت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ ہمیں عورت کی تعلیم کی راہ میں روکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،جو لڑکیوں کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے پڑھائی جاری رکھنے کا اچھا موقع فراہم کرے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو صنفی تفریق اور صنفی عدم مساوات جیسے شدید مسائل اور عصبیت کا سامنا ہے۔ خاص طور پر خواتین جسمانی، ذہنی، نفسیاتی ،مالی ،ثقافتی ،جنسی ، جذباتی تشدد ،کا شکار ہیں۔ ایسے تمام معاشرے جہاں دیگر حقوق میں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے وہاں لڑکیوں کو تعلیم کے حق میں بھی شدید صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نتیجاََ وہاں معاشرتی ترقی کی رفتار مایوس کن ہے۔۔۔ہمارا معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے جہاں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک میں بھی لڑکیوں کی تعلیم صنفی عدم مساوات کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرتی ترقی کی رفتار بھی کافی مایوس کن ھے۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔ صنفی امتیاز اور صنفی عدم مساوات کے خاتمہ کے لیے معاشی طور پر خواتین کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ عورتوں کی تعلیم مرد حاکم معاشروں میں زیادہ ضرورت کی متقاضی ہے ۔ عورت کو عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہونا چاہئے اور نہ صرف گھر داری بلکہ زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں اس کی شمولیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے ۔اس کے لیے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ماں، بہن اور بیٹی کوزیورِ تعلیم سے آراستہ کریں۔آج اگر آپ میں سے کوئی خواتین کو حقیقی حقوق دینا چاہتے ہیں تو انکے کیلئے تعلیمی مواقع پیدا کرے ۔تعلیم یافتہ اور ہنر مند خواتین ہی ہمارے مستقبل کی ذمانت ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری