گلگت بلتستان کا سب سے بڑا سوال ،کس قسم کا آئینی سیٹ اپ مانگے ؟؟ تحریر : انجینئر شبیر حسین

ستر سال سے بنیادی انسانی و آئنی حقوق سے محروم خطہ گلگت بلتستان کے باسی آج بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ انہیں کس قسم کا آئنی سیٹ اپ چاہیے، اس کی بہتر ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس علاقے کے باسیوں کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے والی قوتوں نےیہاں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنانے ہوئے مختلف لوگوں کو علاقائی اور فرقہ وارانہ تقسیم کے ذریعےمختلف سمتوں میں لگا دیا ہے۔ پانچواں صوبہ ، کشمیر سے الحاق، کشمیر طرز کا سیٹ اپ جیسے مطالبات انہیں کی شرارتوں کا شاخسانہ ہے، میں ہمیشہ سے ایک بات کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری ستر سال کی محرومی دیگر تمام تر وجوہات و محرکات کے ساتھ ساتھ ہمارا کسی ایک طرز کے سیٹ اپ پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ جس کی بناء پر ہم فیڈریشن آف پاکستان سے کوئی متفقہ مطالبہ کبھی پیش ہی نہ کر سکے البتہ مختلف نعروں کے ذریعے موقع پرست سیاسی پارٹیوں نے فائدے ضرور لئیے ہیں ۔ آج گلگت بلتستان میں تعلیم کے میدان میں تیزی سے اوپر جاتا گراف اور سوشل میڈیا کی مہربانی سے گلگت بلتستان کی یوتھ میں بڑے پیمانے پر آگہی پیدا ہوئی ہے، یوتھ اس وقت اس بات پہ شاکی ہیں کہ ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے ، اور اس محرومی کو لیکر یوتھ انتہائی فرسٹریشن کی شکار بھی ہیں، لیکن نوجوانوں کو سیاست میں حصہ لینے کے مواقع کے مسدود ہونے کی وجہ سے ان کے اندر اپنے حق کے حوالے سے کوئی روڈ میپ موجود نہیں ہے ۔ اس لئیے کہ یوتھ کو اس حوالے سے اپنے نالج اور تجربہ بڑھانے کا کوئی موقع کہیں بھی میسر نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یونین کونسل سطح پہ بھی ایک عرصے سے الیکشنز نہیں ہو رہے ہیں ، جس کی وجہ سے یوتھ کا سیاسی عمل میں حصہ لینے کے مواقع انتہائی مسدود ہیں ، 24 ممبران میں اسمبلی کے اندر فیڈرل حکومت اور اس کی ایجنسیز کے منظور نظر افرادکے علاوہ کسی کا منتخب ہونا نا تقریبا ممکن ہے ۔ جس کی بناء پر یوتھ کے اندر تمام تر بیداری کے باوجود اپنے آئنی اور تاریخی حوالوں کے زریعے اپنے حق کے حصول کی جد و جہد کیلئے کوئی گراونڈ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی دفعہ ہماری یوتھ سنی سنائی باتوں کے اوپر کسی کے مطالبے کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں ، وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب ہمیں کسی سیٹ اپ کے فائدے نقصانات کا معلوم ہی نہیں تو کیسے ہم اس سیٹ اپ پر متفق ہو سکتے یا ختلاف کر سکتے ہیں ؟ آجکل گلگت بلتستان کی یوتھ کے اندر آزاد کشمیر طرز کے سیٹ کا مطالبہ زورپکڑتا دکھائی دے رہا ہے ، جو میرے خیال سے اوپر بیان کردہ وجوہات کی بناء پر بغیر جانے بوجھے کیا جا رہا ہے ، میں ایسا اس لئیے کہ رہا ہوں کہ جس آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کی بات یہ نوجوان کرتے ہیں اس کی بنیاد اگر مطالعے اور آگاہی پر ہوتی تو کبھی بھی نہ کرتے ، اس لئیے کہ یہ سیٹ اپ ہمارے ہاں نام کی تبدیلی اور انیس بیس کے فرق کے ساتھ پہلے سے موجود ہے ، ان نوجوانوں کا اس مطالبے کے پیچھے سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس سیٹ اپ میں آزاد کشمیر والوں کا اپنا جھنڈا ، اپنا ترانہ اپنا آئین موجود ہے ، مگرحقیقت یہ ہے کہ آزاد کشمیر بھی دراصل ہماری طرح کی ایک کالونی ہے ، جسے وفاقی بیوروکریسی چلاتی ہے، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کے نام پہ مائی باپ ان پہ بھی مسلط ہے ، وفاقی حکومتی پارٹی سے ہٹ کے کسی اور پارٹی کو ووٹ دینے کی ہمت ہماری طرح وہ بھی نہیں رکھتے، بجٹ ان کو بھی گرانٹس کی شکل میں مل جاتے ہیں ، تمام تر آبی وسائل ، جنگلات اور سیاحت ہونے کے باوجود غربت میں وہ بھی جی رہے ہیں ، اپنے پانی کے تصرف کا اختیار ان کے پاس بھی نہیں اس لئیے کہ وہ ارسا نامی ادارے کے رکن نہیں ، سب سے زیادہ فارن ریمٹینس کے حامل ہونے کے باوجود کسی این ایف سی نامی چڑیا کا ایک پر ان کو نھی نہیں ملتا، آج کشمیری اس سیٹ اپ سے نالاں ہیں اور ہم اسی سیٹ اپ کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اس سیٹ اپ کے مطالبے سے پہلے کم از کم ان کشمیری بھائیوں سے ہی ایک بار پوچھا ہوتا کہ کیا آپ اس سیٹ اپ سے مطمئن ہیں ؟؟؟ یقینا آپک کو جواب نفی میں ملتا، دوسری طرف ہم آئنی صوبے کا مطالبہ کر کے تھک چکے ہیں ، پاکستان اس حوالے سے یو این سی آئی پی کی قراردادوں کو رکاوٹ قرار دیتا ہے ، پاکستان کویہ بھی لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دینے سے مسئلہ کشمیر متاثر ہو گا ،صوب بنائے جانے کے مطالبے کو تقریبا گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی کی سطح پرمتفقہ مطالبہ سمجھا جاتا ہے ، ہمارے آزاد کشمیر سیٹ اپ مانگنے والے بھائیوں کی اکثریت بھی صوبے کے مطالبے سے مایوس ہو کر دستبردار ہونے والوں کی ہے ۔ کبھی کھبی ڈر لگتا ہے کہ اس مطالبے سے بھی مایوس ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟؟؟ آگے کوئی بڑا مطالبہ سامنے آ سکتا ہے ، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس مطالبے میں جو سب سے بڑٰی رکاوٹ ہے وہ مکمل آئنی صوبہ بنائے جانے کا مطالبہ ہے ، میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر ہم عبوری آئنی صوبے پہ آجائیں تو ہمارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ، مگر یہ عبوری آئنی صوبہ کس طرز کا ؟؟ اس پر میں اگلے مضمون میں لکھوں گا آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے ۔ کیانکہ ہمیں تین لائنوں کافیس بک سٹیٹس پڑھنے کی عادت ہو گئی ہے، جاری ہے ۔
تحریر : انجینئر شبیر حسین

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری