وزیر تعمیرات کا توہین آمیز بیان اور اہلیان گلگت بلتستان کا کڑا امتحان۔ تحریر :محمد حسن جمالی

ایوان بالا کے مقتدر افراد نے گلگت بلتستان کے عوام کو چاروں جوانب سے دبا کر مفلوج کر رکھا تھا، ذہنی اور فکری طور پر انہیں رکود وجمود کا شکار کرکے یہ باور کروایا ہوا تھا کہ موجودہ ظلم و ستم پر مبنی نظام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں- ان سے آزادی مسلوب کر رکھی تھی، نہ انہیں کھل کر اظہار خیال کرنے کی آزادی تھی اور نہ ہی وہ موجودہ نظام کے خلاف میدان میں نکل کر جلسے جلوس اور تظاهرات کرکے مقتدر افراد سے انصاف کا مطالبہ کرسکتے تھے، وہ فقط اپنے مقدر کو ہی کوستے رہتے تھے- عرصہ دراز سے مقامی وغير مقامی مفاد پرست ٹولے باری باری آتے اور گلگت بلتستان کے عوام کو فریب دے کر اپنی جیب پر کرکے چلے جاتے تھے، وہ اہلیان خطہ بے آئین کو بھیڑ بکری سمجھ کر ان کے مختصر حقوق پر ڈاکہ مارتے، انہیں بے وقوف سمجھتے اور انہیں سبز باغات کی سیر کراکے خوش رکھتے- وہ ان سے ووٹ ضرور وصول کرتے مگر جس کے بل بوتے پر وہ آگے آکر فقط اپنا الو سیدھا کرتے رہتے، وہ انسان نما چیتا بن کر گلگت بلتستان کے عوام کو چیڑ پھاڑ ڈالتے رہتے، یوں گلگت بلتستان کے مکین مایوسی اور ناامیدی کے دلدل میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے مگر بقول کسی دیر آید درست آید کے مطابق مدت مدیدہ کے بعد بلتستان کی سرزمین پر ناامید جی بی عوام کے درمیان آغا علی رضوی صاحب امید کی کرن بن کر ظاہر ہوئے، جنہوں نے گلگت بلتستان کی قوم کو جگایا، ان میں سیاسی معاملات کی درست فہمی کا شعور اجاگر کیا، عوام کو غلط فہمی کی راہ سے ہٹاکر مسائل کو صحیح طریقے سے حل کرنے کے راستے پر لےآئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آغا علی رضوی نے جی بی عوام کے اندر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی ہمت اور جرات پیدا کی، مقتدر افراد کے ظاہر وپوشیدہ غلط حرکتوں اور نا مناسب اقدامات سے پردہ اٹھا کر ان کے برے عزائم کو خاک میں ملادیا اور مزید اس ہدف کے پیچھے وہ پرعزم ہیں- ان کی ایک برجستہ خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کردار سے گلگت بلتستان کے جوانوں کے دلوں میں جابسے ہیں، انہوں نے جوانوں کو متحرک کیا ہے چنانچہ آج ہر جگہ خطہ بے آئین کے جوانان آغا علی رضوی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں جو خوش آئند علامت ہے، لیکن یہ شخصیت جہاں ناامید قوم کے لئے امید کی کرن بن کر ابھری ہے وہاں وہ اقتدار کی طاقت سے سوء استفادہ کرنے والوں کے لیے گلے کا پھندہ ثابت ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ آغا علی رضوی کی محبوبیت لوگوں کے دلوں سے کم کروانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے نہیں تھکتے – حالیہ جدید ظالمانہ آرڈر 20018 کا اعلان ہوا تو یہ مرد مجاہد اپنے لشکر کو لے کر ایک بار پھر میدان میں نکلے، انہوں نے حکومت سمیت حکومتی کارندوں اور مقامی بیکار عہدہ داروں کو خوب سبق سکھایا اور پوری شجاعت سے مجمع عام میں یہ اعلان کیا گیا کہ ہمیں یہ آرڈر ہرگز منظور نہیں ہم اسے مسترد کرتے ہیں، جس سے حکومت وقت اور اس کے اشارے پر ناچنے والوں کو بڑا صدمہ پہنچا، وہ اسے اپنی سخت بے احترامی تصور کرنے لگے اور وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے آغا علی رضوی کی شخصیت کشی کے لئے مذید فعال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں-گزشتہ روز باد شمال اخبار میں نام نہاد ڈاکٹر اقبال کا توہین آمیز بیان شائع ہوا جسے پڑھ کر افسوس کی انتہا نہ رہی، متعلقہ شخص نے اپنے اس بیان میں آغا علی سمیت پورے جی بی عوام کی کھل کر توہین کی گئی ہے- ہماری نظر میں یہ اہلیان گلگت بلتستان کی غیرت کا کڑا امتحان ہے – جی بی عوام کو دینی اور انسانی جزبہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس توہین آمیز بیان دینے والے کو خوب سبق سکھا کر ہی دم لینا چاہیے- ہم اپنی اس مختصر تحریر کی وساطت سے اس توہین آمیز بیان دینے والے کی بھر پور مزمت کرتے ہیں – ایسے شخص کو خطہ امن گلگت بلتستان کے ماتھے پر بدنما داغ سمجھتے ہیں اور قانونی ذمہ داران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس شخص کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھینچ کر تنبیہ کرنے میں دیر نہ کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری