سی پیک اور اتحاد بین المسلمین ضیغم عباس

کیونکہ میں آج کل گلگت بلتستان میں ہوں اور خوش قسمتی کہیئے یا بد قسمتی میرا گھر ان دو بڑی مساجد کے درمیان واقع ہے جہاں سے چند سال قبل ایک دوسرے کے خلاف فتوٰ ے جاری ہوتے تھے، خدا بھلا کرے سی پیک کا، سرمایے اور دھن سمیٹنے والوں نے حالات کو اس قدر خوشگوار بنا دیا ہے کہ اب دونوں مسجدوں کے مولانا حضرات ایک دوسرے کے لیے افطار کا اہتمام کرتے ہیں اتحاد بین المسلمین کی وہ وہ مثالیں قائم ہوری ہیں کہ دیکھ کے یقین نہیں آرہا۔
خیر تو میں کہ رہا تھا کہ چونکہ میں گلگت میں ہوں تو لا محالہ طور پر ان تمام مذہبی تقریبات میں میں حصہ لینا پڑ جاتا ہے جن کو ہمارے بزرگان نے تقریبا واجب ہی سمجھا ہوا ہے، ابا جان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رمضان کے آخری جمعے جس کو ہم شیعہ حضرات یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں، اس کی ریلی میں شرکت کرنے کا موقع ملا، ریلی میں جناب ٹرمپ کا ایک پتلا بھی جلایا گیا اور استعمار مردہ باد کے پر جوش نعرے بھی لگے۔۔ ایسے موقعوں پر اپنے ہم خیال دوستوں کی بہت یاد آتی ہے، جو قدم قدم پر آپ کو یہ کہ کر سہارا دیتے ہیں کہ بس برداشت کریں چند ساعتوں کی بات ہے۔۔
خدا کا کرنا کہ ریلی میں کہیں سے حضرت مدبر علی وارد ہوئے جو کہ آج کل گلگت میں چھوٹے استعماروں کے خلاف بھر پور جدوجہد کر رہے ہیں۔ یوم القدس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مدبر کی بات میرے دل کو لگی۔
اپنی تمام زمینوں کوجی بی والے تقریبا کھو چکے ہیں، خالصہ سرکار کے نام زمینوں کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے اس کے بعد یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ چند سال بعد گلگت والوں کی حالت بھی فلسطینیوں سے کچھ مختلف نہیں ہوگی، آرڈر 2018 کے بعد ویسے بھی پاکستان بھر کے لوگ جی بی کے شہری بن چکے ہیں لہذا اب کوئی آئینی اور قانونی روک ٹوک بھی نہیں۔ سیاسی آزادیاں ویسےبھی صلب ہیں، بات کرنے کی گنجائش تو ہے نہیں، بنیادی انسانی حقوق کی صوتحال بھی کوئی خوشآئند نہیں، صحت، تعلیم اور انصاف تو ویسے ہی ناپید ہے۔
لیکن اس سب کے بعد لوگوں کو امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد سے آگے کچھ پتہ ہی نہیں۔ چھوٹا استعمار گھر کے دروازے پہ لیکن بھڑکیں امریکہ اور اسرائیل پہ۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری