باغی استاد، قمر کاظمی

باغی استاد، ،
استاد ایک نئی زندگی اور ایک نئے انسان کو جنم دینے کا زریعہ بن سکتاھے، تاہم آج تک استاد یہ کردار ادا نہیں کر سکا ،
سماج استاد سے نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا کام لے رھا ھے تاہم گہرائی میں دیکھنے سے یہ پتا چلتا ھے کہ سماج استاد سے تمام قدیم بیماریاں، اندھے اعتقادات ، اور جھوٹی تاریخ نئی نسل کے، ذہنوں میں منتقل کرنے کا کام لے رھا ھے،
معاشرہ باغی استاد کو برداشت نہیں کرتا کیونکہ جس دن استاد، باغی ھوگیا اسدن ایک نیآ سماج جنم لے گا، استاد کا انقلابی ھونا سماج میں تبدیلی کی بنیاد بن سکتا ھے، استاد کو بھر پور عزت دی جاتی ھے مگر سماج صرف اس وقت تک استاد کی عزت کرتا ھے جب تک اس میں بغاوت کی لہر نہ دکھائی دیتی ھو، اگر کبھی استاد میں بغاوت کی کرن پھوٹتی نظر آ جائے تو معاشرہ اسکا گلا گھونٹ دیتا ھے.
یہی وجہ ھے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کے اندر کبھی اننقلابی سوچ نیے تصورات اور نئے خیالات ظہور پزیر نہیں ھوتے، معاشرے نے ہمیشہ استاد کو انقلابی بننے سے روکنے کی کوشش کی ھے کیوں کہ سماج ایک ایسے بڑے طاقتور طبقے کا نمائندہ ھے جس کے ہاتھ میں نئی نسل کا ذھن اور روح ھوتا ھے اگر استاد ہی باغی بن جائے تو پرانے سماج اور نئے سماج کے درمیان دراڑ پڑ جائے گی کیونکہ یہ استاد ہی ھے جو پرانے سماج کو نئی سماج کے حوالے کرتا ھے، پرانے تصورات، خیالات، اعتقادات، رسومات اور تعلیمات کو نئی نسل کے ذھنوں میں اتارتا ھے، استاد ہی وہ راستے ھے جسکے رزیعے ماضی شعوری طور پر مستقبل میں داخل ھوتا ھے،
استاد اپنی تمام تر توانائیاں نئی نسل کو پرانی نسل کے مطابق بنانے میں صرف کرتا ھے پرانے اعتقادات اور رویے جدید نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کرتا ھے تاکہ روایات ِ کہن نئی نسل کی رگوں میں اتر جائے پرانہ سماج اس لیے استاد کا احترام کرتا ھے کیونکہ استاد ماضی کو پچانے میں اہم کردار ادا کرتا ھے ، جس دن استاد باغی ھو گیا ایک نیا سماج پیدا ھوگا جو اپنی نگاہیں نئی زندگی پر مرکوز کرنے کے قابل ھوگا،
پرانی سماجی اور نفسیاتی بیماریوں کا خاتمہ ھوگا ، انسان آزاد ھوگا ،
جب تک استاد کے اندر بغاوت نہیں پیدا ھوگی اس تبدیلی کا آغاز نہیں ھوگا ،
اور میں سوچتا ھوں کہ جو استاد باغی نہیں وہ استاد کیسے ھو سکتا ھے،؟
باغیانہ سوچ کے بغیر آنکھیں علم کی سمت نہیں کھلتیں، باغیانہ سوچ کے بغیر انسان کی روح اپنے خول سے باہر نہیں آتی باغیانہ سوچ کے بغیر کوئی انسان زندگی سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا ،
قمر کاظمی

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری