وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی خواہش نہیں کی
وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیئے ،اس سے گزارش نہیں کی
جانے کیوں بجھنے لگے اولِ شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کہ ہم نے بھی دیا ترکِ تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے، آنکھ نے بارش نہیں کی
اس نے ظاہر نہ کیا اپنا پشیماں ہونا
ہم بھی انجان رہے، ہم نے بھی پرسش نہیں کی
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
عنبریں حسیب عنبرؔ
Comments
Post a Comment