٭کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟٭ سید جواد حسین رضوی



٭کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟٭

انبیاء کو ہمیشہ ان افراد میں سے چنا گیا جن کی لوگ بات سنیں اور تسلیم کریں۔ انبیاء کبھی غلاموں میں بھی نہیں آئے تو اس کا مطلب نہیں کہ غلام انسان نہیں، یا اللہ کی نگاہ میں غلام کی حیثیت نہیں۔ عورتیں ہمیشہ سے ایسے معاشروں میں رہی ہیں جہاں ان کی حیثیت ہمیشہ سے مقہور و مجبور رہی ہے۔ اگر عورت نبی بنتی تو لوگ اس کی بالکل نہ سنتے، اس کی باتوں میں وہ اثر نہ ہوتا جو ایک مرد کی بات میں ہوتا۔ وہی شخص چنا جاتا ہے جس کی بات میں اثر ہو۔ رسول اللہ(ص) سمیت اکثر انبیاء بااثر خاندانوں میں پیدا ہوئے۔ اگر غلام یا کمتر افراد نبی بنتے تو ان کو معاشرہ ویسے ہی رد کر دیتا۔ عورتوں کا بھی یہی مسئلہ ہے، کہ عورت اکثر مقہور رہی ہے۔ لہذا مردوں کو ہی نبی بنایا گيا کیونکہ نبوت کا مقصد پیغام خداوندی کا ابلاغ ہے۔ البتہ عقلی لحاظ سے ناممکن نہیں کہ جن معاشروں میں عورت کا مقام ہو وہاں ان کو نبوت بھی ملتی۔

قرآن میں 26 یا 27 پیغمبروں کے نام آئے ہیں، جبکہ حقیقت میں پیغمبروں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بنا بر مشہور ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں، لیکن بعید نہیں کہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو۔ صرف 26 انبیاء کے نام آنے کا مطلب نہیں کہ باقی انبیاء کا وجود نہیں، گو کہ بعض آيات سے بظاہر لگتا ہے کہ انبیاء صرف مردوں میں آئے، لیکن ان میں خاتون نبی کی نفی بالکل بھی نہیں ہے۔ ذکر نہ ہونے کا مطلب نہیں کہ ان اصناف میں انبیاء کا ہونا ممکن نہیں۔

میں اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ خواتین بھی نبی بنی ہوں گی کیونکہ نبوت کا تعلق ولایت سے ہے، اور ولایت کا تعلق کامل انسان ہونے سے ہے، جب عورت بھی مردوں کی طرح کامل انسان بن سکتی ہے تو نبوت و وحی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن میں مریم اور موسی(ع) کی بہنوں پر وحی کا ذکر ہے، جو اس بات کی غمّاز ہے کہ وحی کے سلسلے میں مرد اور عورت میں فرق نہیں۔ ہاں البتہ نبوت کے وہ مناصب جس میں رہبری اور قتال و جہاد لازمی ہے، یقینا عورت نبیہ ان سے مستثنی ہوگی۔

یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود میں بنی اسرائیل کی سات خاتون انبیاء کا ذکر ہے، بائبل کی کتاب لوقا میں بھی غالبا حضرت عیسی ع کی ولادت کے وقت بعض خاتون انبیاء کا ذکر ہے۔ ان میں جناب مریم کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں جناب مریم کی عظمت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسی عظمت تو شاید کسی مرد نبی کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ قرآن کے لحن سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب مریم ع نبی سے کم بھی نہیں تھیں، اور نبوت بمعنی حقائق کو درک کرنا اور دیگر لوگوں تک ابلاغ کرنا عین ممکن ہے

آیت اللہ جوادی آملی نے "زن در آینہ جلال و جمال" میں اس امکان کو رد نہیں کیا کہ عورت بھی نبیہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے نبوت کی دو اقسام بیان کی ہیں، نبوت انبائی و نبوت اجرائی۔ ان کے مطابق نبوت انبائی عورت کو مل سکتی ہے۔

اہلسنت علماء میں قرطبی اور ابن حزم نے خواتین میں بھی نبوت کو قبول کیا، ان کے نزدیک حضرت حوّا، سارہ، حضرت موسی کی والدہ، ہاجرہ، مریم اور آسیہ نبیہ تھیں۔ اس قول کی نسبت ابوالحسن اشعری کی طرف بھی دی جاتی ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری