خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے


خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے
بہار آنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے

جلا کے شمع اب اٹھ اٹھ کے دیکھنا چھوڑو
وہ ذمہ داری سے ازخود پگھل بھی سکتی ہے

ہے شرط صبح کے رستے سے ہو کے شام آئے
تو رات اس کو سحر میں بدل بھی سکتی ہے

ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ
بھڑک نہ جائیں کہ مسند یہ جل بھی سکتی ہے

ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے

یہ آفتاب سے کہہ دو کہ فاصلہ رکھے
تپش سے برف کی دیوار گل بھی سکتی ہے

ترے نہ آنے کی تشریح کچھ ضروری نہیں
کہ تیرے آتے ہی دنیا بدل بھی سکتی ہے

کوئی ضروری نہیں وہ ہی دل کو شاد کرے
علیناؔ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے

علینا عترت

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری