Posts

Showing posts from August, 2018

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا یا اس پہ مبنی کوئی تاثر کوئی اشارا، تو میں تمہارا غرور پرور، انا کا مالک، کچھ اس قسم کے ہیں نام میرے مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا ، تو میں تمہارا اگر میں جیتا تو تم ہو میرے، اگر میں ہارا ، تو میں تمہارا تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو، میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی تمہارا عاشق، تمہارا مخلص، تمہارا ساتھی، تمہارا اپنا ہمارا گردش میں ہے ستارا، ہے بات معمولی، سی یہ سمجھو رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا ، تو میں تمہارا کہ جونہی آئے گامیرے قابو میں یہ ستارہ ، تو میں تمہارا عامر امیرؔ یہ کس پہ تعویز کر رہے ہو؟یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے؟ تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے مجھ کو فکر رہتی ہے، آپ اُنہیں گنوا دیجے آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا دیکھیے میں کہتی ہوں، یہ بہت بُرا ہو گا ◌ میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ! زشکِ سروِ سیمینا! اے بہ نازُکی مینا! اے بہ جلوہ آئینہ! میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں لوحِ دل جلا دوں کیا سطر سطر ہے اُن کی، کہکشاں خیالوں کی کہکشاں لُٹا دوں کیا جو بھی حرف ہے اُن کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے نقشِ جاں مٹا دوں کیا اُن کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی میں اُنہیں گنوا دوں کیا لوحِ دل جلا دوں کیا کہکشاں لُٹا دوں کیا نقشِ جاں مٹا دوں کیا ◌ مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید جرم کر گئی ہو تم اور خیال آنے پر اُس سے ڈر گئی ہو تم جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے اے مری فروزینہ! دل کی جانِ زرّینہ! رنگ رنگ رنگینا! بات جو ہے وہ کیا ہے؟ تم مجھے بتاؤ تو میں تمہیں نہیں سمجھا تم سمجھ میں آؤ تو جُرم کیوں کئے تم نے خط ہی کیوں لکھے تم نے؟ جونؔ ایلیا

TAJZIA Afzal Shigri , Qamar Kazimi

Image

مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں

مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں ہم سہمے ہوئے لوگ ہیں ہمت سے گریزاں اک پل کا توقف بھی گراں بار ہے تجھ پر اور ہم کہ تھکے ہارے مسافت سے گریزاں اے بھولے ہوئے ہجر کہیں مل تو سہی یار اک دوجے سے ہم دونوں ہیں مدت سے گریزاں جا تجھ کو کوئی جسم سے آگے نہ پڑھے گا اے مجھ سے خفا میری محبت سے گریزاں اے زندہ بچے شخص یہ سب لے کے پلٹ جا ہم جنگ میں ہیں مال غنیمت سے گریزاں

علینا عترت پروین شاکر

پروین شاکر سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو وہ گل کھلے کہ شوخی صبا ہی اور ہو گئی نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہ ملی عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہو گئی علینا عترت پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہو گئی قبول ہوتے ہوتے ہر دعا ہی اور ہو گئی ذرا سا رک کے دو گھڑی چمن پہ کیا نگاہ کی بدل گئے مزاج گل ہوا ہی اور ہو گئی یہ کس کے نام کی تپش سے پور پور جل اٹھے ہتھیلیاں مہک گئیں حنا ہی اور ہو گئی خزاں نے اپنے نام کی ردا جو گل پہ ڈال دی چمن کا رنگ اڑ گیا