علینا عترت پروین شاکر

پروین شاکر
سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی
رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی
بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی
اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی
بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
وہ گل کھلے کہ شوخی صبا ہی اور ہو گئی
نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی
یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی
ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہ ملی
عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی
پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہو گئی
علینا عترت
پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہو گئی
قبول ہوتے ہوتے ہر دعا ہی اور ہو گئی
ذرا سا رک کے دو گھڑی چمن پہ کیا نگاہ کی
بدل گئے مزاج گل ہوا ہی اور ہو گئی
یہ کس کے نام کی تپش سے پور پور جل اٹھے
ہتھیلیاں مہک گئیں حنا ہی اور ہو گئی
خزاں نے اپنے نام کی ردا جو گل پہ ڈال دی
چمن کا رنگ اڑ گیا صبا ہی اور ہو گئی
غرور آفتاب سے زمیں کا دل سہم گیا
تمام بارشیں تھمیں گھٹا ہی اور ہو گئی
خموشیوں نے زیر لب یہ کیا کہا یہ کیا سنا
کہ کائنات عشق کی ادا ہی اور ہو گئی
جو وقت مہرباں ہوا تو خار پھول بن گئے
خزاں کی زرد زرد سی قبا ہی اور ہو گئی
ورق ورق علیناؔ ہم نے زندگی سے یوں رنگا
کہ کاتب نصیب کی رضا ہی اور ہو گئی

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری