مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں


مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں
ہم سہمے ہوئے لوگ ہیں ہمت سے گریزاں
اک پل کا توقف بھی گراں بار ہے تجھ پر
اور ہم کہ تھکے ہارے مسافت سے گریزاں
اے بھولے ہوئے ہجر کہیں مل تو سہی یار
اک دوجے سے ہم دونوں ہیں مدت سے گریزاں
جا تجھ کو کوئی جسم سے آگے نہ پڑھے گا
اے مجھ سے خفا میری محبت سے گریزاں
اے زندہ بچے شخص یہ سب لے کے پلٹ جا
ہم جنگ میں ہیں مال غنیمت سے گریزاں

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری