حکمران طبقے | Advocate Ehsan

حکمران طبقے ( سرمایہ دار جاگیردار فوجی و حکمران افسرشاہی) کے ہاں اخلاقیات سیاسی و مزہبی اقدار بنیادی انسانی جمہوری اور سیاسی حقوق نام کی چیزوں کی رتی برابر بھی اہمیت نہیں ہوتی اس استحصالی حکمران طبقے کے سامنے صرف ان کا طبقاتی مفاد ہی اولین درجہ رکھتا ھے سیاسی و جمہوری حقوق، قانون کی نطر میں سب برابر، قانون کی حکمرانی، ریاست کی حیثیت ماں جیسی ھوتی ھے جو سب کے ساتھ یکسان سلوک کرتی ھے، عوام کی جان مال عزت اور انکی بنیادی آزادیوں کا تحفط ریاست کی اولین زمہ داری ھے یہ اور ان جیسے دیگر جملے محض کتابوں میں زکر ھونے کی حد تک محدود ھے مگر یہ تلخ حقیقت ھے کہ ایک طبقات سماج میں ریاست صرف اور صرف وسائل دولت، دولت اور پیداوار پہ قابض حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات کا محافظ ھوتا ھے اور ریاست کے تمام ادارے اسی حکمران طبقے کے اقتدار و اختیار اور پالیسیز کو چیلنج کرنے والی تنظیموں تحریکوں اور ان تحریکوں میں سرگرم عمل سیاسی کارکنوں کو دبانے اور انہیں ایک حد سے آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے آلہ کار کے طور پہ کام کرتے ہیں اور جب مزدور کسان شہری کسب گر، بےروزگار نوجوان اور دیگر کچلے ھوئے طبقےجو سماج کی غالب اکثریت آبادی پہ مشتمل ہیں ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پہ متحد ھو کر اقتدار و اختیار اپنے ہاتھوں میں لیتے ھوئے وسائل دولت، دولت اور پیداوار کو اپنے ہاتھوں میں لیں گے تب ریاست کا کردار بھی مکمل طور پہ بدل جائے گا اور ایسی انقلابی تبدیلی کی صورت میں انتطامیہ پولیس فوج اور دیگر اداروں کا کردار سرمایے کی حفاظت سے بدل کر پیداوار کے خالق محنت کشوں اور انکے معاون کچلے ھوئے طبقوں کے اقتدار و اختیار کی حفاظت کرنا ٹھیرے گا موجودہ سرمایے اور منافعے پہ مبنی ایک فیصد استحصالی طبقے کی حکمرانی کی جگہ محنت کی حکمرانی کی حفاظت نئے ریاست اور اسکے اداروں کی اولین زمہ داری ھو گی اسلئے سرمایئے کی حفاظت کیلئے بنائی گئ ریاست اور ریاستی اداروں سے کسی غیرجانبداری اور انصاف کی امید رکھنا ایسا ہی ھے جیسے کیکر کی درخت سے سیب کا پھل لگنے کی امید رکھنا۔ اسلئے آج نوجوانوں کو عالمی سرمایہ داری اور پاکستانی سرمایہ دار طبقے کا اس عالمی سرمایے سے رشتہ اور مفاد نیز ان دونوں کے مفادات کی تحفظ میں ریاست کا کردار سمجھنے کیلئے مارکس اینگلز لینن ٹراٹسکی اور گرامچی جیسے مارکسی فلسفے کے بنیادی رہنماوں اور دانشورں کی تحریروں کو پڑھنا اشد ضروری ھے۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری