(ڈاکٹر ریاض رضیؔ) | علم کے اسباب و علل میں اخلاق و تربیت اہم ستون ہیں


(خصوصی فیچر)
علم کے اسباب و علل میں اخلاق و تربیت اہم ستون ہیں
تعلیم محض اسباق و ابواب کی تحفیظ کا نام نہیں،شعورکے حصول کا اوّلین ذریعہ تعلیم و تعلّم ہے، جدید دُنیا کی خوبصورت پہچان بھی کسبِ علم ہے
دُنیا میں علم کی فضلیت ہمیشہ رہی ہے، زبانی کلامی سے زیادہ عمل کا حقیقی مصرف ہی ترقی کی ضمانت ہے، اعلیٰ تعلیم کےلئے معیار تلاش کرنا ہوگا
تربیت و اخلاق علم سے اِکتساب کا پہلا دروازہ ہے،بلتستان یونیورسٹی کا قیام اور اُس کی بقاء اُس تعلیم و تربیت کا حقیقی مقصد ہے
(ڈاکٹر ریاض رضیؔ)
بلتستان یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے جو حالات و واقعات رونما ہوئے اُس کی تفصیل و توضیح کےلئے ایک پورے کتابچے کی ضرورت ہے،اُمید ہے کہ یہ خواہش بھی راقمُ الحروف کے قلم سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔(انشاء اللہ) لیکن سرِ دست ہم بلتستان یونیورسٹی کے قیام کے حقیقی مقصد و مصرف کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ دُنیا کا دستور ہے کہ تعلیم کا محض سبب اسباق و ابواب کو حفظ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ تربیت و اخلاق کے حقیقی کھوج اور تلاش ہے۔جبکہ دُنیا نے مان لیا ہے کہ علم کے بہت سارے اسباب اور علتوں میں سے اخلاق و تربیت دو اہم ستون ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک معاشرے میں شعور کا اوّلین ذریعہ تعلیم و تعلم ہی ہے۔ اِس کے بغیر نہ تو شعور کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی معاشرے کو اِرتقاء کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ کیا ہم بھول گئے کہ جدید دُنیا نے علم کے ذریعے بہت ساری چیزیں اور ضرورتیں کسب کرلی ہیں۔ جبکہ اِسی دُنیا کی کئی اقوام کو فضلیت یا رُتبہ اگر ملا ہے تو وہ بھی محض علم کے توسط سے ہی ملا ہے۔جب یہ بات یقینی ہے کہ زبانی کلامی سے زیادہ علم و عمل ہی ترقی کے ضامن ہیں تو پھر ہم کیوں خوابِ غفلت کے پردوں میں رہیں۔ کیوں نہ ہم بھی دستورِ دُنیا کے اُس کارواں میں شامل ہوجائیں جہاں تربیت و اخلاق کو علم سے اِکتساب کرنے کا یقینی دروازہ قرار دیا جاتا ہے۔ اُسی خواب کی تعبیر کےلئے، جدید دُنیا سے ہم آہنگ ہونے کےلئے اور بہت ساری اُمیدوں کی برآوری کےلئے بلتستان یونیورسٹی کا قیام ممکن ہوا۔ اب یہ جامعہ اپنے حقیقی اہداف کی طرف مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ نوزائیدہ یونیورسٹی کی راہ میں بہت ساری رُکاوٹیں ہیں۔ بڑے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ جبکہ اہداف کی تکمیل میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن پُرعزم حوصلہ ہمارے جذبوں کا ترجمان ہیں۔ ہم نے نہ تھکنے، نہ مشکلات سے گھبرانے اور نہ ہی اہداف سے پیچھے ہٹنے کی قسم کھائی ہے۔ بھلے زمانے کی نیرنگیوں کا کس قدر سامنا ہی کیوں نہ ہو۔ الزامات در الزامات کی بوچھاڑ کیوں نہ ہو۔ بس آگے بڑھنا ہے اور اُس علم کی ترسیل تک پہنچنے کی سعی کرنی ہے جس کے متمنی ہم سب ہیں، ہماری قوم ہے اور ہماری آنے والی نسل ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے تھکنے کی عادت ڈال لی تو ہم نے مقصدِ حقیقی سے منہ موڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیوں نہ دریا کا رُخ مخالف سمت کی طرف ہوجائے ہم نے پھر بھی دُرست سمت کو نہیں چھوڑنا ۔ یہ ہم سب کا عزم ہے۔ بلتستان یونیورسٹی کے پُرعزم اساتذہ اور جہاندیدہ اِنتظامیہ کا فیصلہ ہے کہ ہم نے بلتستان یونیورسٹی کی ترقی اور کامیابی کو ہی اوّلیت دینی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری