پاکستان کی سالمیت کی تکرار اور گلگت بلتستان | Shokoor Khan


پاکستان کی سالمیت کی تکرار اور گلگت بلتستان
ڈسٹرکٹ مجسڑیٹ غذر نے مورخہ 24جولائی کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں 16 تا 23 جولائی کے دوران غذر میں احتجاجی جلسے منعقد کرنے اور ان سے خطاب کرنے والوں سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے جلسوں میں ایسے الفاظ استعمال کئے جو پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ اور علاقے کی پر امن فضاء کو آلودہ کرنے کا سبب بنے، اس غیر قانونی و غیر اخلاقی فعل کی پاداش میں کیوں نہ ان کے خلاف شیڈول فور کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
آئیئے ذرا اس نوٹس کے متن کا تجزیہ کرتے ہیں:-
حقوق سے محروم گلگت بلتستان کے باسیوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کے خلاف نہ صرف ماضی میں اس قسم کے نوٹسز جاری ہوتے رہے ہیں بلکہ انہیں عملا شیڈول فور میں ڈالا جاتا رہا بعد ازاں شیڈول فور کی خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر گرفتار کرکے انسانیت سوز تشدد سے گزار کر جیلوں میں ڈالا جاتا رہا۔
"پاکستان کی سالمیت اور بقا کو خطرہ" والے غیر حقیقی مصنوعی الفاظ انتظامیہ اور پولیس کے تکیہ کلام بن چکے ہیں، یہ ادارے ایجنسیوں کی ہدایات پر من وعن عمل کرتے ہیں اور ایجنسیاں ریاست پاکستان سے براہ راست ہدایات لیتی ہیں۔
ذرا غور فرمائیں کہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ کی حقیقت کیا ہے۔
پاکستان کے کل ملا کر چار صوبے ہیں جن میں اب قبائلی علاقے بھی زم ہوچکے ہیں، ان کے علاوہ اسلام آباد کا علاقہ ہے۔ ان کے علاوہ کوئی علاقہ پاکستان کا حصہ ہے اور نہ پاکستان کے آئین میں شامل ہے۔
پاکستان کی سالمیت کو اس کے اپنے صوبے بلوچستان سے خطرہ ہے جہاں علیہدگی کی مسلح تحریک چل رہی ہے، اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو سالم پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ لہذا یہی سے پاکستان کی سالمیت کو اصل خطرہ ہے کیونکہ بلوچستان پاکستان کا آئینی حصہ ہے۔
اسی طرح کراچی میں جناح پور نامی مہاجر علہیدگی پسند تحریک، سندھو دیش تحریک، کےپی کے کی پختونستان نامی تحریکیں اپنا وجود رکھتی ہیں چونکہ انہیں خطوں یا صوبوں سے مل کر پاکستان سالم بنا تھا، اب ان میں سے اگر ایک بھی الگ ہوا تو پاکستان عملا سالم نہیں رہے گا۔ لہذا انہیں خطوں سے اٹھنے والی تحریکیں پاکستان کی سالمیت کے لیےحقیقی خطرہ ہیں۔
گلگت بلتستان پاکستان کا نہیں "جموں و کشمیر ایشو" کا حصہ ہے۔ پاکستان نہ اسے اپنے نقشے میں شامل کرسکا نہ آئین میں اور نہ بین الاقوامی اداروں کے سامنے برملا اپنا حصہ کہنے کی جرات کر سکا۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں اسے پاکستان کا نہیں جموں کشمیر ایشو کا حصہ قرار دیا ہے۔ راقم کے نزدیک سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہ ہونے کی بنا اس کے اختیار سماعت سے باہر ہے۔ سپریم کورٹ ایران، افغانستان کے بارے اختیار سماعت نہیں رکھتی بالکل اسی طرح جی۔بی اس کے علاقائی حدود territorial jurisdiction میں نہیں آتا۔ جی۔بی کے حوالے سے اس کا کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہے چاہے ہم جی۔بی والوں کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے جس ادارے کا موقف معتبر ہے وہ پاکستان کا فارن آفس ہے۔ پاکستان کا وزارت خارجہ واحد ادارہ ہے جو اپنا مقدمہ سکیورٹی کونسل سمیت دنیا کے کسی بھی ادارے میں لے جا سکتا ہے۔ پاکستان گلگت بلتستان کے معاملے میں خود سے کچھ کر سکتا ہے اور نہ بین الاقوامی قوانین سے روگردانی کرنے کی جرات کر سکتا ہے وہ صرف اپنے فارن آفس کے ذریعے کسی بین الاقوانی فورم میں مقدمہ پیش کر سکتا ہے جہاں اپنے حق میں فیصلہ لینا پاکستان کی خواہش ہوسکتی ہے مرضی نہیں۔
گلگت بلتستان میں چلنے والی تحریکیں 72 سالہ محرومیوں کا شاخسانہ ہیں۔ ریاست پاکستان نے گلگت بلتستان کے باسیوں کو اپنا سمجھا نہ ان کا اعتبار کیا، یہی وجہ ہے کہ شروع دن سے تمام کلیدی عہدوں پر افسران پاکستان سے درآمد کئے گئے اور ان کی تعداد کم کرنے کی بجائے روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے یوں مقامی افسران کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے، مقامی باشندوں کو اپنے ہی دیس میں یرغمال بنا دیا گیا ہے۔
آج گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کی بحالی، آئین ساز اسمبلی کا قیام، سٹیٹ سبجکٹ رول کی بحالی، مقامی خود مختاری سمیت دیگر جائز مطالبات مختلف پلیٹ فارموں پر زور پکڑتے جارہے ہیں۔ ریاست پاکستان ان جائز مطالبات پر غور کرنے کی بجائے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے والا فارمولا آزماتی رہے گی تو ردعمل بھی اسی نوعیت کا ہوگاجو یقینا ریاست کے لیے ناخوشگوار نتائج کا حامل ہوگا۔
ڈپٹی کمشنر غذر نے حالیہ دنوں پرامن جلسہ جلوسوں کو غیر اخلاقی اور پرامن ماحول کو آلودہ کرنے کے مترادف قرار دے کر مقررین کو شیڈول فور میں جھکٹنے کی دھمکی دی ہے۔ موصوف سے پوچھا جائے کہ "کےپی کے" کے دھشتگرد دندناتے جی۔بی میں داخل ہوکر شریف معصوم افراد کو بلا وجہ اسلحہ کی نوک پر اغواء کرنے سے کیا پرامن ماحول میں خوشبو پھیل گئی تھی؟ جسے احتجاج کے شرکا نے آلودہ کیا؟
اگر جناب کی دانست میں پرامن احتجاجی جلسے غیر اخلاقی ہیں تو کیا دھونس، دھمکی، مسلح دراندازی، اغواء اخلاقی ہیں؟
کوہستانی مدمعاش نے پریس کانفرنس میں کہا کہ "میں ایسا ویسا اسلحہ نہیں رکھتا میرے پاس اعلی قسم کا اسلحہ ہے"! دیکھتے ہیں ڈی۔سی موصوف کو احکامات دینے والے ریاستی ادارے اعلی قسم کے اسلحہ کی بھاری کھیپ رکھنے کا برملا اظہار کرنے والے درانداز، اغواء کاروں سے یہ اسلحہ کب برآمد کرتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری