Posts

Showing posts from July, 2019

حکمران طبقے | Advocate Ehsan

حکمران طبقے ( سرمایہ دار جاگیردار فوجی و  حکمران  افسرشاہی) کے ہاں اخلاقیات سیاسی و مزہبی اقدار بنیادی انسانی جمہوری اور سیاسی حقوق نام کی چیزوں کی رتی برابر بھی اہمیت نہیں ہوتی اس استحصالی حکمران طبقے کے سامنے صرف ان کا طبقاتی مفاد ہی اولین درجہ رکھتا ھ ے  سیاسی و جمہوری حقوق، قانون کی نطر میں سب برابر، قانون کی حکمرانی، ریاست کی حیثیت ماں جیسی ھوتی ھے جو سب کے ساتھ یکسان سلوک کرتی ھے، عوام کی جان مال عزت اور انکی بنیادی آزادیوں کا تحفط ریاست کی اولین زمہ داری ھے یہ اور ان جیسے دیگر جملے محض کتابوں میں زکر ھونے کی حد تک محدود ھے مگر یہ تلخ حقیقت ھے کہ ایک طبقات سماج میں ریاست صرف اور صرف وسائل دولت، دولت اور پیداوار پہ قابض حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات کا محافظ ھوتا ھے اور ریاست کے تمام ادارے اسی حکمران طبقے کے اقتدار و اختیار اور پالیسیز کو چیلنج کرنے والی تنظیموں تحریکوں اور ان تحریکوں میں سرگرم عمل سیاسی کارکنوں کو دبانے اور انہیں ایک حد سے آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے آلہ کار کے طور پہ کام کرتے ہیں اور جب مزدور کسان شہری کسب گر، بےروزگار نوجوان اور دیگر کچلے ھوئے طبقےجو سماج

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے | راحت اندوری

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا  ہے     میری زبان سے پروردگار بولتا ہے. 💜 . تیری زبان کترنا بہت ضروری ہے تجھے مرض ہے کہ تو بار بار بولتا ہے.. کچھ اور کام اسے آتا ہی نہیں ہے شاید مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے... 💔 راحت اندوری. 🍂

(ڈاکٹر ریاض رضیؔ) | علم کے اسباب و علل میں اخلاق و تربیت اہم ستون ہیں

Image
(خصوصی فیچر) علم کے اسباب و علل میں اخلاق و تربیت اہم ستون ہیں تعلیم محض اسباق و ابواب کی تحفیظ کا نام نہیں،شعورکے حصول کا اوّلین ذریعہ تعلیم و تعلّم ہے، جدید دُنیا کی خوبصورت پہچان بھی کسبِ علم ہے دُنیا میں علم کی فضلیت ہمیشہ رہی ہے، زبانی کلامی سے زیادہ عمل کا حقیقی مصرف ہی ترقی کی ضمانت ہے، اعلیٰ تعلیم کےلئے معیار تلاش کرنا ہوگا تربیت و اخلاق علم سے اِکتساب کا پہلا دروازہ ہے،بلتستان یونیورسٹی کا قیام اور اُس کی بقاء اُس تعلیم و تربیت کا حقیقی مقصد ہے (ڈاکٹر ریاض رضیؔ) بلتستان یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے جو حالات و واقعات رونما ہوئے اُس کی تفصیل و توضیح کےلئے ایک پورے کتابچے کی ضرورت ہے،اُمید ہے کہ یہ خواہش بھی راقمُ الحروف کے قلم سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔(انشاء اللہ) لیکن سرِ دست ہم بلتستان یونیورسٹی کے قیام کے حقیقی مقصد و مصرف کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ دُنیا کا دستور ہے کہ تعلیم کا محض سبب اسباق و ابواب کو حفظ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ تربیت و اخلاق کے حقیقی کھوج اور تلاش ہے۔جبکہ دُنیا نے مان لیا ہے کہ علم کے بہت سارے اسباب اور علتوں میں سے اخلاق و تربیت دو اہم ستون ہی

پاکستان کی سالمیت کی تکرار اور گلگت بلتستان | Shokoor Khan

پاکستان کی سالمیت کی تکرار اور گلگت بلتستان ڈسٹرکٹ مجسڑیٹ غذر نے مورخہ 24جولائی کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں 16 تا 23 جولائی کے دوران غذر میں احتجاجی جلسے منعقد کرنے اور ان سے خطاب کرنے والوں سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے جلسوں میں ایسے الفاظ استعمال کئے جو پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ اور علاقے کی پر امن فضاء کو آلودہ کرنے کا سبب بنے، اس غیر قانونی و غیر اخلاقی فعل کی پاداش میں کیوں نہ ان کے خلاف شیڈول فور کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ آئیئے ذرا اس نوٹس کے متن کا تجزیہ کرتے ہیں:- حقوق سے محروم گلگت بلتستان کے باسیوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کے خلاف نہ صرف ماضی میں اس قسم کے نوٹسز جاری ہوتے رہے ہیں بلکہ انہیں عملا شیڈول فور میں ڈالا جاتا رہا بعد ازاں شیڈول فور کی خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر گرفتار کرکے انسانیت سوز تشدد سے گزار کر جیلوں میں ڈالا جاتا رہا۔ "پاکستان کی سالمیت اور بقا کو خطرہ" والے غیر حقیقی مصنوعی الفاظ انتظامیہ اور پولیس کے تکیہ کلام بن چکے ہیں، یہ ادارے ایجنسیوں کی ہدایات پر من وعن عمل کرتے ہیں اور ایجنسیاں ریاست پاکستان سے براہ راست ہدایات لیتی ہیں۔ ذر

ایک قطعہ ۔۔۔۔۔۔ ماں کے نام | ____ناصر انصاری___

Image
ایک قطعہ ۔۔۔۔۔۔ ماں کے نام جیسے اک آہو دشت میں ظالم پنجوں کی وحشت سے بھاگے نیند کے آسودہ لمحوں سے رات بھر ایسے بھاگی ہونگی میں نے کہا تھا فون پہ شب کو دیر سفر سے پہنچوں گا میں امّی گیٹ کے بلب جلائے گھر میں اکیلی جاگی ہونگی _______ناصر انصاری___

رینچن لوبزانگ | "گلگت بلتستان کی سرحدوں میں دراندازی "

Image
"گلگت بلتستان کی سرحدوں میں دراندازی " گلگت بلتستان کے مقامی مجاہدین نے کرنل مرزا حسن خان (ٹائیگر فورس)اور کرنل احسان علی(مارخور فورس) کی قیادت میں جب انڈین اور ڈوگرہ فوجوں سے تیرہ ماہ طویل جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی تو گلگت بلتستان کا جھنڈا شندور، شناکی کوہستان سے لے کر لیہ لداخ،سیاچن گلیشیر سے لیکر شقسکم ،زنسکار زوجیلا سے لے کر نوبرا تورتک، چولونکھا ،ٹیقشی اور تھنگ تک پھیلا ہوا تھا ،جس کا رقبہ اکیاسی ہزار مربع میل بنتا ہے۔ مگر اب اس میں شقسکم موجود نہیں ہے جو پاکستانی بزدل حکم رانوں نے 1961-62 میں چین کو شاید جہیز میں دے دیا تھا) ،ٹیاقشی ،چولنکھا ،تورتک ،تھنگ،ہندورمو پر مشتمل ہزاروں مربع کلومیٹر علاقہ بھی شامل نہیں (جو 1971 کی جنگ میں 93000 پاکستانی فوجی چھڑانے کے لیے بھارت کو تاوان میں دیا گیا) ،سیاچن گلیشیر کو 1984میں بھارت کو سزا دینے کے لیے بخش دیا گیا ہے (کیونکہ پاکستانی صدر جنرل ضیاء کے مطابق یہاں گھاس تک نہیں اگتی تھی )اور شناکی کوہستان جو چین اور انڈیا سے بچ گیا تھا وہ کے پی کے صوبہ کو تحفے میں دیدیا ،جس پر انہوں نے آگے بڑھ کر بھاشا،لولوسر اور شندور پر بھی ہاتھ صاف