Posts

Showing posts from June, 2018
عجب مذاق رَوا ہے' یہاں نظام کے ساتھ   وہی یزید کے ساتھی ' وہی امام کے ساتھ  میں رات اُلجھتا رہا ' دِین اور دُنیا سے  غزل کے شعر بھی کہتا رہا 'سلام کے ساتھ  سِتم تو یہ ہے کہ کوئی سمجھنے والا نہيں  مرے سکوت کا مطلب مرے کلام کے ساتھ یہ جھوٹ موٹ کے درویش پھر کہاں کُھلتے  کہ میں شراب نہ رکھتا اگر طعام کے ساتھ ضرور اس نے کوئی اِسم پڑھ کے پھونکا ہے  لپٹ رہی ہیں جو شہزادیاں غلام کے ساتھ عمران

"مسئلہ فلسطین اور مسئلہ گلگت بلتستان " رینچن لوبزانگ

رینچن لوبزانگ کی وال سے فلسطین کا مسئلہ مذہبی ہو یا سیاسی اس بات سے کوئی زی ہوش اور دردمند انسان (مسلم و غیر مسلم) انکار نہیں کر سکتا کہ فلسطینی مظلوم ہیں اور اسرائیل ظالم ... لہذا ان سے اظہار ہمدردی عین انسانیت ہے... بس ایک گزارش ہے کہ جس طرح ایرانی رہبران نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنی دردمندی پوری طاقت اور جرات کے ساتھ ساری دنیا تک پہنچائی ،اور گلگت بلتستان سمیت پوری دنیا کے شیعوں اور حق پرستوں نے اس پر لبّیک کہا .بالکل اسی طرح ہم گلگت بلتستان کے بے آئین ، محکوم اور فلسطینیوں کی ہی طرح اپنی ہی زمینوں سے جبری بے دخلی سے دوچار مستعف عوام ایرانی رہبر انقلاب اسلامی سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی طرح انکے دکھوں کے مداوے کے لیے بھی اسی شد و مد سے ضرور آواز اٹھائیں گے ... اور یہ مطالبہ بالکل جائز یوں ہے کہ ہم گلگت بلتستانی شیعہ ایرانی رہبر کو اپنا رہبر (مذہبی سیاسی دونوں لحاظ سے )مانتے ہیں اور انکے ہر چھوٹے بڑے فرمان پر (خواہ اس کا ہم سے واسطہ ہو یا نہ ہو) "جان بھی قربان ہے " کہتے ہیں !!!

سی پیک اور اتحاد بین المسلمین ضیغم عباس

کیونکہ میں آج کل گلگت بلتستان میں ہوں اور خوش قسمتی کہیئے یا بد قسمتی میرا گھر ان دو بڑی مساجد کے درمیان واقع ہے جہاں سے چند سال قبل ایک دوسرے کے خلاف فتوٰ ے جاری ہوتے تھے، خدا بھلا کرے سی پیک کا، سرمایے اور دھن سمیٹنے والوں نے حالات کو اس قدر خوشگوار بنا دیا ہے کہ اب دونوں مسجدوں کے مولانا حضرات ایک دوسرے کے لیے افطار کا اہتمام کرتے ہیں اتحاد بین المسلمین کی وہ وہ مثالیں قائم ہوری ہیں کہ دیکھ کے یقین نہیں آرہا۔ خیر تو میں کہ رہا تھا کہ چونکہ میں گلگت میں ہوں تو لا محالہ طور  پر ان تمام مذہبی تقریبات میں میں حصہ لینا پڑ جاتا ہے جن کو ہمارے بزرگان نے تقریبا واجب ہی سمجھا ہوا ہے، ابا جان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رمضان کے آخری جمعے جس کو ہم شیعہ حضرات یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں، اس کی ریلی میں شرکت کرنے کا موقع ملا، ریلی میں جناب ٹرمپ کا ایک پتلا بھی جلایا گیا اور استعمار مردہ باد کے پر جوش نعرے بھی لگے۔۔ ایسے موقعوں پر اپنے ہم خیال دوستوں کی بہت یاد آتی ہے، جو قدم قدم پر آپ کو یہ کہ کر سہارا دیتے ہیں کہ بس برداشت کریں چند ساعتوں کی بات ہے۔۔ خدا کا کرنا کہ ریلی میں کہیں سے حضرت

سکردو ڈیم شوشہ ہے یا حقیقی منصوبہ ؟؟؟ رینچن لوبزانگ

Image
سکردو ڈیم شوشہ ہے یا حقیقی منصوبہ ؟؟؟ کچورا ڈیم یعنی سکردو ڈیم (پاکستانی واپڈا حکّام اسے کتزرہ ڈیم کہتے ہیں) پنجاب سمیت تمام پاکستانی صوبے سکردو ڈیم پر متّفق ہیں۔منصوبہ یہ ہے کہ سکردو ڈیم دیامر بھاشا ڈیم بننے کے بعد شروع کیا جائے گا. منصوبے کے مطابق کچورا کا مقام ڈیم کی نچلی حد ہوگی جہاں پر spillways بنیں گی جس کے نتیجے میں کچورا ،گمبہ سکردو،سکردو شہر ،حسین آباد اور تھورگو سمیت نر تھنگ تک کے علاقے کو ڈبو کر دنیا کا سب سے بڑا قدرتی ڈیم بنایا جائے گا.اس سلسلے میں سابق واپڈا چ یئرمین شمس الملک کا کہنا ہے کہ "اس ڈیم کے لیے feasibilty study کی بھی ضرورت نہیں ہے ،یہ قدرتی طور پر بنا بنایا ڈیم ہے" ان کا مزید کہنا ہے کہ سکردو ڈیم سے دیامر بھاشا ڈیم کی لائف تیس سال اور تربیلا ڈیم کی لائف پچاس سال بڑھ جائے گی .... گلگت بلتستان کو آئینی سیٹ اپ کے بجائے "آرڈرز" پر چلانے کی وجوہات میں سے ایک یہ ڈیم بھی ہے تاکہ خودمختار حکومت کے بجائے ڈمی دلالوں کے ذریعے سے عوام کو ہموار کیا جاسکے ..اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کی خلاف ورزیوں اور خالصہ سرکار قرار دے کر ہماری زمینوں کو ہتھیانے میں تیزی

ہم کسی فیکٹری کے مزدور نہیں کہ ہر سال نئے پیکج اور آرڈر مسلط کیا جائے، گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا تیسرا فریق ہے۔ نواز خان ناجی

Image
رکن اسمبلی نواز ناجی نے کہا ہے کہ ہم نے آرڈر 2009کو بھی مسترد کرکے اس کی کاپی کو اسلام آباد میں نزر آتش کیا تھا اور آرڈر  2018کو بھی مسترد کرکے وزیر اعظم کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ہم کسی فیکٹری کے مزدور نہیں کہ ہر سال نئے پیکج اور آرڈر کے ذریعے ہمارے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے دو ملین عوام اپنے بنیادی آئنی حقوق کے لیے برسرپیکار ہے گلگت بلتستان ک و جوبھی دیاجائے   ملک کی اسمبلی سے منظور کرکے دیا دیا ئے ایک صدر کے دستخط سے جاری آرڈر کی کوئی اوقات ہے اور نہ ہم اسے تسلیم کریں گے انہوں نے کہا ہماری جدوجہد کسی پارٹی یا حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ہم اس نظام کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں جس سے گلگت بلتستان ہر دور میں مشکلات کاشکار رہا ہے گلگت بلتستان میں شعوری انقلاب آچکا ہے اب یہاں کے نوجوانوں کو جعلی حکم ناموں سے خاموش نہیں کرایاجاسکتا ۔ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا تیسرا فریق ہے ہم شروع روز سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو مکمل داخلی خودمختاری دی جائے۔ نواز ناجی نے کہا کہ موجودہ آرڈر بھی تمام آرڈروں کی طرح دھوکہ اور حقوق غصب کرنے کا تحریری حکم نام

خواتین اور تعلیم تحریر ۔خدیجہ اکبر خان

   مردوں کے مساوی حقوق کے لیے جدو جہد کرنا پڑ رہی ہے۔مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گْھلنا شروع ہو جاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ عورت معاشرے کا اہم جز ہے جسے ہر روپ میں اسلام نے اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے۔اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو حقوق دئیے۔اور ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔ تعلیم کے حصول کے لئے خواتین کو یکساں مواقع کی فراہم ہونے چاہئیں۔ تعلیم یافتہ خواتین قومی ترقی کے فروغ میں اہم کردار کی حامل ہیں۔ یہ امر ضروری ہے کہ خواتین تعلیم

حسن کوزہ گر ...ن م راشد

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں! تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف کی دکّان پر میں نے دیکھا تو تیری نگاھوں میں وہ تابناکی تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ھوں جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں! یہ وہ دور تھا جس میں میں نے کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا ــــــــــ وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے "حسن کوزہ گر اب کہاں ھے وہ ہم سے خود اپنے عمل سے خداوند بن کر خداؤں کے مانند ھے روئے گرداں!" جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے تغاروں میں مٹی کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ھوتا تھا میں سنگ بستہ پڑی تھی صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے شکستہ پڑے تھے میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برھنہ سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا جہاں زاد، نو سال

”تشدد کے ضابطوں کو ہم نہیں مانتے“ (ڈاکٹرریاض رضیؔ)

(گلگت میں حقوق کی آرزو لئے سڑکوں کی خاک چھاننے والے فدایانِ وطن پر بربریت قابلِ مذمت ہے) حق کی بات کہنے کی تھی کہی گئی، حق کو چھیننے کی ”گستاخی“ جو کر بیٹھے اہلیانِ وطن کہ رقیب سے رہا نہ گیا۔ پُرتشدد پالیسی کی وضع قطع سے یہ باور کرایا گیا کہ جنبشِ قلم کو اب ٹوکنے کی سزاء موت ہے۔ تبھی تو حفیظو نے ڈنڈوں سے مظاہرین کی خُوب ”تواضع“ کی۔ ہم سے تقاضا ہے کہ مہذب ہوں ہم اور خود کی تو ساری تہذیب دریا بُرد کرچکے ہیں۔ نہ معلوم کہ ٢٠١٨ء کے آرڈیننس کی وثاقت کو ثابت کرنے کےلئے آپ طُرفہ تماشہ اور ظلمِ بے پناہ کی کون سی حد پار کریں گے۔ خدشہ یہی ہے کہ اس دوران آپ کی آنکھ و کان بند اور زبان کنگ رہے گی جبکہ ہاتھ مسلسل حرکت میں رہیں گے۔۔ خدا را! مخلوقِ خدا کی بے حرمتی کا سبب مت بنیئے ورنہ آپ کا حساب بھی بے حساب ہوگا۔۔انشاءاللہ

گلگت بلتستان آرڈر 2018کے خلاف عوامی احتجاج اور حکومتی ہٹ دھرمی۔ تحریر: شیرعلی انجم

اٹھائیس ہزار مربع میل پر مشتمل مسلہ کشمیر سے منسلک خطہ گلگت بلتستان صدیوں پر محیط ایک تاریخی خطہ ہے۔ تاریخ کے دریچوں کو کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں صدی عیسوی سے یہاں دردستان، بلورستان اور بروشال کی ریاستیں قائم تھی اور اس خطے کو تبت ریاست کی ایک اہم اکائیہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اُنیسویں صدی میں اس خطے پر سکھوں نے قبضہ کر لیا اور101سال تک ڈوگروں کے ماتحت رہے۔ اس دوران یہاں کے باسیوں نے سکھوں سے آذادی حاصل کرنے کیلئے کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اس کے باوجود آذادی نصیب نہیں ہوئی اور بلآخر متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب مہاراجہ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو یہاں کے عوام نے ڈوگرہ سلطنت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور بغیر کسی غیرریاستی امدا کے گلگت اور لداخ میں ڈگروہ حکومت کا خاتمہ کرکے جمہوریہ گلگت کے نام سے نئے ریاست کی بنیاد رکھی اور یہ ریاست صرف 16 دن تک قائم رہے۔ اس نومولود ریاست کی بربادی کیلئے غیروں کی سازش اور اپنوں کی روش اور متعصبانہ سوچ نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ لیکن اُس آذادی کی بنیاد پر نہ گلگت بلتستان مکمل طور پر پاک

وزیر تعمیرات کا توہین آمیز بیان اور اہلیان گلگت بلتستان کا کڑا امتحان۔ تحریر :محمد حسن جمالی

ایوان بالا کے مقتدر افراد نے گلگت بلتستان کے عوام کو چاروں جوانب سے دبا کر مفلوج کر رکھا تھا، ذہنی اور فکری طور پر انہیں رکود وجمود کا شکار کرکے یہ باور کروایا ہوا تھا کہ موجودہ ظلم و ستم پر مبنی نظام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں- ان سے آزادی مسلوب کر رکھی تھی، نہ انہیں کھل کر اظہار خیال کرنے کی آزادی تھی اور نہ ہی وہ موجودہ نظام کے خلاف میدان میں نکل کر جلسے جلوس اور تظاهرات کرکے مقتدر افراد سے انصاف کا مطالبہ کرسکتے تھے، وہ فقط اپنے مقدر کو ہی کوستے رہتے تھے- عرصہ دراز سے مقامی وغير مقامی مفاد پرست ٹولے باری باری آتے اور گلگت بلتستان کے عوام کو فریب دے کر اپنی جیب پر کرکے چلے جاتے تھے، وہ اہلیان خطہ بے آئین کو بھیڑ بکری سمجھ کر ان کے مختصر حقوق پر ڈاکہ مارتے، انہیں بے وقوف سمجھتے اور انہیں سبز باغات کی سیر کراکے خوش رکھتے- وہ ان سے ووٹ ضرور وصول کرتے مگر جس کے بل بوتے پر وہ آگے آکر فقط اپنا الو سیدھا کرتے رہتے، وہ انسان نما چیتا بن کر گلگت بلتستان کے عوام کو چیڑ پھاڑ ڈالتے رہتے، یوں گلگت بلتستان کے مکین مایوسی اور ناامیدی کے دلدل میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے مگ

میں گلگت بلتستان ہوں۔۔ تحریر: صفدر حسین

گلگت بلتستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو خود کو پاکستان کا حصہ سمجھتا اور کہتا ہے اور پاکستان اس خطے کو متنازعہ کہتا ہے ۔گلگت بلتستان سی پیک کے لیے نہایت حساس اور اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔گلگت بلتستان دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت کی مثال رکھتا ہے۔گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے۔گلگت بلتستان میں امن پسند اور محب وطن لوگ بستے ہیں۔ این ایل آ ئی پاک فوج کی رانی اور سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر گلگت بلتستان کی قوم کا حب لوطنی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔گلگت بلتستان نے اپنی ۷۱ بہاریں پاکستان پہ نچھاور کیں اور انعام میں ۷۱سالوں سے آئینی حقوق سے محرومی ملی۔جمہوریت کا خاصہ ہے کہ جس رفتار سے انتخابات کا وقت قریب آتا ہے اَسی رفتار سے سیاست کے رگ وریشے میں خون کادباوَ اور درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے اس شدت کا اثرخطہ شمال میںجی بی آرڈر ۲۰۱۸ کے روپ میں نمایاں نظر آرہا ہے۔جی بی آرڈر ۲۰۱۸ ایف سی آر کی جدید اور غلامی بدترین شکل ہے ۔ لیکن اب یہاں کی عوام جاگ چکی ہے اور اپنے حق ملکیت و حق حاکمیت سے با خوبی آگاہ بھی ہے۔اب کی بار حکومت پاکستان کی سبز باغ دکھانے کی کوشش نا کام رہے گی ک

گلگت بلتستان کا سب سے بڑا سوال ،کس قسم کا آئینی سیٹ اپ مانگے ؟؟ تحریر : انجینئر شبیر حسین

ستر سال سے بنیادی انسانی و آئنی حقوق سے محروم خطہ گلگت بلتستان کے باسی آج بھی یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ انہیں کس قسم کا آئنی سیٹ اپ چاہیے، اس کی بہتر ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس علاقے کے باسیوں کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے والی قوتوں نےیہاں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنانے ہوئے مختلف لوگوں کو علاقائی اور فرقہ وارانہ تقسیم کے ذریعےمختلف سمتوں میں لگا دیا ہے۔ پانچواں صوبہ ، کشمیر سے الحاق، کشمیر طرز کا سیٹ اپ جیسے مطالبات انہیں کی شرارتوں کا شاخسانہ ہے، میں ہمیشہ سے ایک بات کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری ستر سال کی محرومی دیگر تمام تر وجوہات و محرکات کے ساتھ ساتھ ہمارا کسی ایک طرز کے سیٹ اپ پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ جس کی بناء پر ہم فیڈریشن آف پاکستان سے کوئی متفقہ مطالبہ کبھی پیش ہی نہ کر سکے البتہ مختلف نعروں کے ذریعے موقع پرست سیاسی پارٹیوں نے فائدے ضرور لئیے ہیں ۔ آج گلگت بلتستان میں تعلیم کے میدان میں تیزی سے اوپر جاتا گراف اور سوشل میڈیا کی مہربانی سے گلگت بلتستان کی یوتھ میں بڑے پیمانے پر آگہی پیدا ہوئی ہے، یوتھ اس وقت اس بات پہ شاکی ہیں

گلگت بلتستان کو درپیش مشکلات اور قومی وحدت کی اہمیت۔ تحریر: علی شیر

روشن دریچے گلگت بلتستان آرڈر 2018 میرے لئیے ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔جو آرڈر میری ٹیبل میں پڑا ہوا ہیں اسے حکومتی زمہ داران جعلی قرار دے چکے ہیں اور حکومت جس آرڈر کو اصلی ڈرافٹ قرار دے رہی ہیں وہ مہیا کرنے میں حیل حجت کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہیں۔قطہ نظر آرڈر 2018 اچھا ہے یا برا۔لفظ آرڈر کا استعمال حاکم محکوم کے لئے آفسر ماتحت کے لئیے یا پھر ریاست کسی امور میں قانونی و آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کو آرڈر سنا سکتی ہیں۔گلگت بلتستان حقوق صوبائی گیر خواہش میں عوام میں دو طرح کی خواہشات پائی جاتی تھی “پانچواں آئینی صوبہ یا پھر آزاد کشمیر طرز کا نظام”۔اتحادی اپوزیشن کی جانب سے گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے مخالفتی نکات میں ایک معقول بیانہ بھی سامنے آ رہا تھا وہ یہ کہ جو بھی نظام ہوں وہ ایکٹ آف پارلیمان کا حصہ ہوں۔مگر خطے کی متنازعہ حثیت میں ایکٹ آف پارلیمان کی گنجائش کے تشریح سے معزور دیکھائی دئے۔صوبائی حکومت عوامی مینڈیٹ رکھتی ہیں یقیننا انہوں نے اپنے طے خطے کی عوام کی ترجمانی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہوگی مگر گلگت بلتستان کے باشندگان میں اس آرڈر کے حوالے سے عوامی آگہی م